سینیٹر محمد جاوید عباسی کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس

پیر 14 جنوری 2019 22:17

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 جنوری2019ء) ایوان بالاء کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد جاوید عباسی کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین سینیٹ کی طرف سے بھیجے گئے معاملہ برائے وراثتی ( سکسیشن) سرٹیفکیٹ کے حصول کو آسان بنانے کے حوالہ سے میکنزم تیار کرنے، قائمہ کمیٹی کے 5 ستمبر2018ء کے اجلاس میں لیٹرز آف ایڈمنسٹریشن اینڈ سکسیشن سرٹیفکیٹس ایکٹ2018ء بارے وزارت قانون و انصاف سے بریفنگ کے علاوہ سینیٹر میاں رضاربانی کے آئینی ترمیمی بل 2018ء کے آرٹیکل27 میں ترامیم، سینیٹر سیّد محمد صابر شاہ کے آئینی ترمیم بل 2018ء، فیڈرل اوبیڈسمین انسٹی ٹیوشنل ریفامز بل2018ء، سول پروسیجر ترمیمی بل2018ء، محمد عتیق رفیق کی عوامی عرضداشت کے علاوہ لوگوں کے بلیک لسٹ میں نام شامل کرنے اور اس کی قانونی حیثیت کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

(جاری ہے)

اجلاس کے دوران وراثتی سرٹیفکیٹ کے حصول کو آسان بنانے کے حوالے سے معاملے کا قائمہ کمیٹی نے تفصیل سے جائزہ لیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے حکومت کی طرف سے تیار کردہ نئے بل کا جائزہ بھی لیا تھا۔ وراثتی سرٹیفکیٹ کے حصول میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اب وقت بدل چکا ہے تمام چیزیں ایک جگہ اکٹھی ہونی چاہئیں، ایک سرٹیفکیٹ کے حصول کیلئے سالوں گزر جاتے ہیں۔

اس حوالے سے قانون کو مزیدمو ثر بنانے کیلئے اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کونسل کو کمیٹی اجلاس میں مدعو کیا ہے تاکہ ان کے رائے حاصل کی جائے۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف بیرسٹر ڈاکٹرمحمد فروغ نسیم نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے عوامی نوعیت کے بل پر اچھی بحث کی ہے اور اچھی چیزوں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ پارلیمنٹرین کو بھی وراثتی سرٹیفکیٹ کے حصول میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو عام عوام کا کیا حال ہوگا۔

نئے قانون کی وجہ سے 90 فیصدسرٹیفکیٹ آسانی سے مل جائیں گے۔ ہمیںجدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہئے۔ عدالت وراثتی سرٹیفکیٹ کیلئے نادرا سے فیملی ٹری لیتی ہے۔ نادرا کی معلومات کے بغیر عدالت فیصلہ نہیں کر سکتی۔ عدالتوں کے پاس بہت زیادہ کام ہے اور اس طرح کے کیسز میں لائنوں میں لگنا پڑتا ہے۔ لیٹر ز آف ایڈمنسٹریشنز اور وراثتی سرٹیفکیٹ میں اگر کوئی جھگڑا یا مسئلہ ہوتو معاملہ عدالت ریگولیٹر سوٹ کو ریفر کر دیتی ہے جہاں سالوں لگ جاتے ہیں۔

10 فیصد جھگڑے والے کیسز کی وجہ سی90 فیصد آسان کیسز کو بھی لائنوں میں لگانا پڑتا ہے۔رکن کمیٹی سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے کہا کہ چیئرمین نادرا نے کہا تھا کہ ہمارے پاس صلاحیت بھی نہیں ہے اور نہ ہی شفافیت کی ضمانت دے سکتے ہیں۔ رکن کمیٹی سینیٹرڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ نادرا کے پاس وفاق، نکاح اور برتھ سرٹیفکیٹ کا تمام ڈیٹا نہیں ہوتا۔

سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ 60 فیصد سے زائد نکاح زبانی پڑھائے جاتے ہیں ان کا ریکارڈ ہی نہیں ہوتا۔ وفاقی وزیر قانون و انصاف نے کہا کہ نئے بل تیار کرنے میں ملک کی بار ایسوسی ایشنز سے تجاویز حاصل کی گئی ہیں اور نادرا سے بھی تفصیلی مشاورت کی ہے ایک یونٹ قائم کرنے سے سسٹم کو آسان بنایا جاسکتا ہے۔ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کونسل کے نمائندوں نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ چونکہ یہ بل اسلام آباد کے علاقے تک کیلئے ہے، بہتر ہوتا کہ اسلام آباد بار کونسل سے مشاورت کی جاتی۔

وراثتی سرٹیفکیٹ دو ماہ میں مل جاتا ہے، جو لوگ بیرون ممالک ہوتے ہیں ان کیلئے مسائل ہوتے ہیں تمام ورثا کو اکٹھا ہونا پڑتا ہے، موجودہ قانون بہتر ہے۔ ڈی جی نادرا نے کہا کہ پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر اسلام آباد میں قانون بنایا جائے بعد میں پورے ملک کو شامل کیا جاسکتا ہے جس پر سینیٹر رضاربانی نے کہا کہ لوگ غلط معلومات کی بناء پر فیملی ٹری میں لوگوں کو شامل کر لیتے ہیں اس کے نتائج کتنے خطرناک ہو سکتے ہیں۔

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ نادرا میں لاکھوں لوگوں کے جعلی شناختی کارڈ بنائے گئے ہیں۔ نادرا اپنے بنیادی کام کو ٹھیک کر لے، 5 فیصد لوگوں کو ریلیف دینے میں95 فیصد لوگوں کو مسائل سے بچایا جائے۔ سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ نادرا نے ابھی تک یہ ہوم ورک بھی نہیں کیا کہ اس پر کتنی لاگت آئے گی اور وراثت کی تقسیم کیلئے کیا طریقہ کار رکھا گیا ہے جس پر ڈی جی نادرا نے کہا کہ شادی ، نکاح ، پیدائش اور وفات وغیرہ کا ریکاڈ لوکل حکومت کے پاس ہوتا ہے۔

سسٹم کو آن لائن کیا جارہا ہے پھر یونین کونسل کی معلومات بھی نادرا کے پاس ہوں گی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ یونٹ میں متعلقہ فیلڈ کے افسران بھرتی کیے جائیں گے۔ کمپیوٹر پروگرامز ہوں گے اور جہاں مسائل ہوں گے وہ کیسز متعلقہ سکیشن کو ریفر کر دیئے جائیں گے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایسا قانون تیار کیا جائے جس میں زیادہ سے زیادہ معاملات کوآسان کیا جائے اور اراکین کمیٹی کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے چیزیں شامل کی جائیں۔

معاملے کو آئندہ اجلاس تک موخر کیا جاتا ہے۔ سینیٹر میاں رضاربانی کے آئینی ترمیمی بل2018ء کے حوالہ سے قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے حاصل کی جائے۔ قائمہ کمیٹی نے سینیٹر سید محمد صابر شاہ کے آئینی ترمیمی بل 2018ء کا تفصیل سے جائزہ لیا۔ اراکین کمیٹی نے کہا کہ قرآن مجید کیلئے جو کاغذ استعمال کیا جاتا ہے اس کے معیار کو مزید موثر بنایا جائے اور ایک سنٹرل اتھارٹی قائم کی جائے جو اشاعت ، تحریراور ترجمے کا خیال رکھے جس پر قائمہ کمیٹی نے وزارت قانون کو اس حوالے سے تجاویز تیار کرنے کی ہدایت کر دی۔

فیڈرل اوبیڈسمین انسٹی ٹیوشنل ریفامز بل2018ء کے حوالہ وفاقی وزیر نے کہا کہ اس وقت اس بل کو حکومت سپورٹ نہیں کرتی لہذا بل واپس کر دیا گیا۔ محمد عتیق رفیق کی عوامی عرضداشت کے حوالے سے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ قائمہ کمیٹی نے اس پر پہلے تفصیلی بحث کی ہے بہتر یہی ہے کہ وزارت داخلہ اس حوالے سے رائے فراہم کرے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں لوگوں کے نام بلیک لسٹ میںشامل کرنے اور اس کی قانونی حیثیت کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا۔

سینیٹرز میاں رضاربانی ، مصطفی نواز کھوکھر ،مصدق مسعود ملک اور عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ کس قانون کے تحت لوگوں کے نام بلیک لسٹ میں شامل کیے جاتے ہیں، کہاں سے ہدایت آتی ہے کہ لوگوں کو ملک سے باہر جانے سے روکا جائے اور اس حوالے سے کس قانون کے تحت یہ اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ ایوان بالاء کی انسانی حقوق کمیٹی میں پارلیمنٹرین کے سفر کرنے پر پابندی کے حوالے سے وزارت داخلہ سے پوچھاگیا تو بتایا گیا کہ ای سی ایل کے علاوہ کوئی قانون نہیں ہے جس میں لوگوں کے بنیادی حق پر پابندی عائد کی جائے۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایف آئی اے کے پاس ایک فہرست پی این آئی ایل ہوتی ہے جس میں لوگوں کو ایئر پورٹ پر روکا جاتا ہے یہ فہرست عدالت کے حکم پر بنائی جاتی ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ آئندہ اجلاس میں سیکرٹری داخلہ ، ڈی جی ایف آئی اے اور ڈی جی پاسپورٹ سے ون ایجنڈا میٹنگ کر کے تفصیلی بریفنگ حاصل کی جائے کہ کس قانون کے تحت لوگوں کو سفر کرنے سے روکا جاتا ہے۔

کس اتھارٹی کے تحت یہ پابندی لگائی جاتی ہے اور کتنے لوگوں کو بلیک لسٹ کیا گیا ہے اور ہدایات کہاں سے حاصل کی جاتی ہیں۔ قائمہ کمیٹی نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ ایوان بالاء کی انسانی حقوق کی کمیٹی اور وزارت انسانی حقوق کے وزیر، وزیر داخلہ، سیکرٹری داخلہ ، ڈی جی ایف آئی اے اور ڈی جی پاسپورٹ بھی کمیٹی اجلاس میں شرکت کریں۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز میاں رضاربانی، میر حاصل خان بزنجو، سراج الحق، عائشہ رضا فاروق، مصدق مسعود ملک، ڈاکٹر غوث محمد خان نیازی، مصطفی نواز کھوکھر، ثناء جمالی، ڈاکٹر شہزاد وسیم، سید محمد صابر شاہ کے علاوہ وفاقی وزیر قانون و انصاف ڈاکٹر محمد فروغ نسیم، سینئر ایڈوائز وزارت قانون ملک حاکم علی خان، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت قانون، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ، ڈی جی نادرا اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔