15 سالوں میں صوبہ پر فنڈز لگائے جاتے تو آج بلوچستان کا یہ حال نہ ہوتا، میر جام کمال

سیاسی طورپر 25 سال کے دوران بلوچستان کو ہم نے خود پسماندہ کیا ناراض لوگ بلوچستان کے اندر ہی رہتے ہیں، باہر کے لوگ صرف ان ناراض لوگوں پر سیاست کرتے ہیں، وزیراعلیٰ بلوچستان

ہفتہ 26 جنوری 2019 23:22

15 سالوں میں صوبہ پر فنڈز لگائے جاتے تو آج بلوچستان کا یہ حال نہ ہوتا، ..
کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 جنوری2019ء) وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال نے کہا ہے کہ اگر 15 سالوںمیں صوبہ پر فنڈز لگائے جاتے تو آج بلوچستان کا یہ حال نہ ہوتا سیاسی طورپر 25 سال کے دوران بلوچستان کو ہم نے خود پسماندہ کیا ناراض لوگ بلوچستان کے اندر ہی رہتے ہیں باہر کے لوگ صرف ان ناراض لوگوں پر سیاست کرتے ہیں بلوچستان میں مذہبی انتہاء پسندی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے گوادر میں کچھ سالوں کے دوران 2 لاکھ ایکڑ زمین خردبرد کی گئی صوبہ کے ترقیاتی منصوبہ کا اعلان ہوا پھر انہیں فائلوں میں دفن کر دیا گیا حکومت بلوچستان کو 4 سو ارب روپے سے زائد رقم کی ضرورت ہے ان خیالات کا اظہار وزیراعلیٰ بلوچستان نے ایک نجی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کیا وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ بلوچستان کی امن وامان کی صورتحال میں فورسز کے ساتھ ساتھ عام شہریوں نے بھی قربانیاں دی ہیں ان قربانیوں کی بدولت آج ہم پرسکون ہیں اور تمام قومی شاہرائوں پر دن ہو یا رات لوگ بلاخوف و خطر سفر کرسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسائل میں غربت سب سے اوپر ہے اگر ماضی کے حکمران بلوچستان کے مسائل پر توجہ دیتے تو آج یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی بلوچستان میں ہزاروں ایسے منصوبے ہیں جس پر پی ایس ڈی پی جاری کی گئی ہے لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں سیاسی طورپر 25 سال کے دوران بلوچستان کو ہم نے خود پسماندہ رکھا اگر 15 سال بھی صوبہ پر فنڈز لگائے جاتے تو آج یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی صوبہ میں ترقیاتی منصوبوں کا اعلان ہوا پھر انہیں فائلوں میں دفن کیا گیا بہت سے ایسے ترقیاتی منصوبے ہیں جو کتابوں میں لیکن زمین پر کچھ دکھائی نہیں دیتا انہوں کہا کہ بلوچستان کی پی ایس ڈی پی کو کتابوں میں خوبصورت بلوچستان کی محرومیت کو ختم نہیں کیا گیا موجودہ حکومت نے یہ طے کررکھا ہے کہ تمام وسائل کو فوری طورپر حل کریں گے اور جو کرپشن ہوئی ہے ان تمام افراد کو نہیں بخشا جائے گا ماضی میں بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے صوبے کے مسائل حل کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے عوام نے عام انتخابات میں ان سیاسی جماعتوں کو مسترد کرکے بلوچستان عوامی پارٹی اور دیگر جمہوری جماعتوں کو عام انتخابات میں کامیاب کرایا اور موجودہ حکومت اور اتحادی جماعتیں بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے ملکر اقدامات اٹھا رہے ہیں مسلم لیگ (ن) بلوچستان میں ایک دم ختم نہیں کی گئی بلکہ 2016ء میں اختلافات پیدا ہوگئے جس کی وجہ سے ہمارے دوستوں نے نئی پارٹی بنانے کے لئے ایک دوسرے سے رابطے شروع کئے اور باپ پارٹی کو وجود میں لایا گیا جو عام انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری 2013ء میں آزاد امیدوار کے طورپر انتخابات میں کھڑے ہوئے اور پھر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت کی ہٹ دھرمی کے باعث یہاں پر پشتونخوامیپ اور نیشنل پارٹی کو بلوچستان حکومت میں زیادہ ترجیح دی اور مسلم لیگ (ن) کو وہ پذیرائی نہیں ملی جس کی توقع کی جارہی تھی جس کی وجہ سے اس وقت کے پارٹی ممبران نے ناراضگی کا اظہار کیا اور یہ اختلافات 2018ء سے نہیں بلکہ 2016ء میں شروع ہوئے اور جب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو اقتدار سونپا گیا تو مسلم لیگ (ن) کے اس وقت کے ممبران ناراض ہوئے اور جب نواب ثناء اللہ زہری کو ڈھائی سالہ مدت کے بعد اقتدار کیا گیا ڈھائی سالہ دور میں نواب ثناء اللہ زہری کو زیادہ متحرک نہیں دیکھا گیا انہوں نے کہا کہ اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی اور ان کے اتحادیوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے ہماری اکثریت سب سے زیادہ ہے حکومت گرانے کا کوئی خطرہ نہیں بی این پی کے سربراہ اختر مینگل وفاق کے اتحادی ہیں بلوچستان میں وہ جمعیت علماء اسلام کے اتحادی ہیں جو اس وقت دونوں اپوزیشن کا کردار ادا کررہے ہیں ہمارے پاس اس وقت تعداد 40 جبکہ ان کے پاس 23 ممبران ہیں ہماری حکومت 5 سال کی مدت باآسانی پوری کرے گی وزیراعلیٰ بلوچستان میر جام کمال نے کہا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے مبثت بات چیت ہوئی ہے ماما قدیر اور نصراللہ بلوچ نے جو لسٹ حکومت کو فراہم کی ہے ان میں کچھ لوگ بازیاب ہوئے اور کچھ لوگوں کی بازیابی کے لئے کام کیا جارہا ہے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کو روکنے کے لئے بارڈر پر باڑ لگانے کا کام جاری ہے جو اس سال کے آخر تک مکمل ہو جائے گا اور اسی طرح ویسٹرن بارڈر پر باڑ لگائی جائے گی ۔