Live Updates

عمران خان نے خیبرپختونخواہ میں بھی عثمان بزدار جیسے بندے کو لگایا ہے تاکہ کوئی ان کے سامنے کھڑا نہ ہو سکے

سینئیر صحافی رؤف کلاسرا نے خیبرپختونخواہ میں چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کی تبدیلی کے پیچھے اصل وجہ بتا دی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 12 فروری 2019 11:28

عمران خان نے خیبرپختونخواہ میں بھی عثمان بزدار جیسے بندے کو لگایا ہے ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 12 فروری 2019ء) : نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے سینئیر صحافی و تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے کہا کہ خیبرپختونخواہ میں جو انقلاب لانے والے تھے ، وہ دو ہی لوگ تھے ۔ لیکن اُس کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا رہا ہے۔ خیبرپختونخواہ کا کلچر ہی ایسا ہے کہ وہاں کی پولیس پنجاب کی پولیس سے کافی مختلف ہے۔ خیبرپختونخواہ کی پولیس پنجاب پولیس کے مقابلے میں زیادہ قابل احترام ہے۔

انہوں نے خیبرپختونخواہ میں جو ٹیم بنائی تھی وہ ایک آئیڈیل ٹیم تھی ۔ پہلے انہوں نے اوپر ناصر خان درانی کو بٹھایا اور نیچے صلاح الدین محسود کو چارج دیا تھا۔ انہوں نے تھانے کے کلچر سمیت کئی چیزوں کو تبدیل بھی کیا۔ لیکن 2018ء کے انتخابات کے بعد یہ لوگ ایک مختلف قسم کا ماڈل دے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

جس کے تحت انہوں نے یہ کام کیا ہے کہ صوبے کا گورنر ایک طاقتور انسان کو لگایا جائے جبکہ وزیراعلیٰ کسی کمزور انسان کو بنا دیاجائے کیونکہ پرویز خٹک اپنے وزارت اعلیٰ کے زمانے میں عمران خان کے سامنے ڈٹ گئے تھے اور خیال کیاجا رہا تھا کہ وہ بغاوت کر جائیں گے اسی لیے پی ٹی آئی نے ایک نیا ماڈل تشکیل دیا۔

یہی ماڈل انہوں نے پنجاب میں بھی استعمال کیا، اور چودھری سرور جیسے تجربہ کار انسان کو گورنر لگا دیا، اسی طرح خیبرپختونخواہ میں بھی انہوں نے ایسے ہی لوگ ڈھونڈے ہیں۔ خیبرپختونخواہ میں بھی جو ہو رہا ہے وہ شاہ فرمان صاحب کر رہے ہیں اور وہاں کے وزیراعلیٰ کو تو بولنے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اعظم خان صاحب وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے ہیں اور ارباب شہزاد سمیت گورنر صاحب بیٹھے ہیں، یہ تمام لوگ مل کر بیوروکریسی کو دیکھ رہےہیں جبکہ انہوں نے وزیراعلیٰ نام کا ہی بٹھایا ہوا ہے۔

خیبرپختونخواہ میں فاٹا کے انضمام سے مسائل شروع ہوئے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ خاصہ دار ختم کر کے، پولیٹیکل ایجنٹ کے دفاتر ختم کر کے پولیس تھانے بنائیں کچہریاں بنائیں۔ وہاں قبائلی علاقہ میں شاہ فرمان کا راج تھا اسی لیےانہوں نے مشورہ دیا کہ فاٹا میں تھانے یا کچہریاں نہ بنائی جائیں بلکہ خاصہ دار فورس اور لیویز کو ہی رہنے دیا جائے۔

شاہ فرمان کی کوشش تھی کہ اگر پولیس کو فاٹا میں کام کرنے کی اجازت دینی ہے تو اُس کے لیے ایم پی ایز کا کوٹا رکھا جائے۔ اسی اختلاف کی وجہ سے چیف سیکرٹری نوید کامران بلوچ کو ہٹایا گیا۔ 28 جنوری 2019ء کو وزیراعظم کے سیکرٹری اعظم خان نے ایک خط جاری کیا جس میں کہا گیا کہ خیبرپختونخواہ پولیس ماڈل کو پنجاب میں بھی لایا جائے جس کے لیے کمیٹی اور ایس او پیز بھی بنائے گئے۔

اب وزیراعظم ہاؤس میں موجود عمران خان کی ٹیم، جس میں اعظم خان یا ارباب شہزاد ہوں گے، یہ چاہتی ہے کہ خیبرپختونخواہ پولیس کے ماڈل کو پنجاب میں تو لایا جائے لیکن قبائلی علاقوں میں نہیں جانے دیں گے۔ یہ لوگ قبائلی علاقوں لیویز اور خاصہ دار فورس کو ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے شاہ فرمان ، اعظم خان اور ارباب شہزاد نے وزیراعظم ہاؤس سے بیٹھ کر یہ تمام تبدیلیاں کی ہیں۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات