جنگ کوئی تفریح نہیں،پاکستان کیخلاف جنگ کے آپشن کے بجائے سفارتکاری کا راستہ چنا جائے،سابق سربراہ را کا بھارتی حکومت کو انتباہ

موجودہ دور میں جنگ بھیانک ہوچکی ،یقین ہے جنگ کے علاوہ بھی آپشنز موجود ہیں،سابق وزیراعظم نے اس سے کئی زیادہ بری صورتحال کا سامنا کیا لیکن معاملات کو تحمل سے سنبھالا ،مودی کو بھی اپنے آپشنز پر غور کرنے ضرورت ہے،امرجیت سنگھ دولت

ہفتہ 23 فروری 2019 13:27

جنگ کوئی تفریح نہیں،پاکستان کیخلاف جنگ کے آپشن کے بجائے سفارتکاری ..
نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 فروری2019ء) بھارتی خفیہ ایجنسی (را) کے سابق سربراہ امرجیت سنگھ دولت نے بھارتی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کوئی تفریح نہیں اس لئے پاکستان کیخلاف جنگ کے آپشن کے بجائے سفارتکاری کا راستہ چنا جائے۔ایک انٹرویو میں را کے سابق سربراہ ایس دولت نے کہا ہے کہ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ فوج کو کلی اختیار دیدیاگیا ہے لیکن یاد رہے کہ اس دور میں جنگ نہایت بھیانک ہوچکی ہیں، مجھے یقین ہے کہ جنگ کے علاوہ بھی آپشنز موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ممبئی حملوں کے بعد بھی جنگ کے بادل چھا گئے تھے اور شائد صورتحال زیادہ سنگین تھی لیکن اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے جنگ کا راستہ اختیار نہیں کیاچنانچہ نریندر مودی کو بھی اپنے آپشنز پر غور کرنے کی اور اعلیٰ حکام کو جنگ کے نتائج پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ جنگ کوئی تفریح نہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ 1971 کے بعد سے کوئی حقیقی جنگ نہیں لڑی گئی اور کارگل ایک محدود آپریشن تھا جو پہاڑی علاقوں میں ہوا اور خوش قسمتی سے زیادہ شہری متاثر نہیں ہوئے لیکن اگر لاہور پر بم گرایا گیا یا امرتسر پر بمباری کی گئی یا پھر مظفر آباد پر بم حملہ کیا گیا تو کیا ہم اس کے نتائج بھگتنے کیلئے تیار ہیں کیوں کہ آج کل کے ہتھیار تبدیل ہوچکے ہیں یہ 1971 والے نہیں۔

اے ایس دولت نے کہا کہ سابق وزیراعظم نے اس سے کہیں زیادہ بری صورتحال کا سامنا کیا تھا جس میں کارگل آپریشن، پارلیمنٹ پر حملہ اور بھارتی ہوائی جہاز کو اغوا کر کے قندھار لے جانا شامل ہے لیکن انہوں نے تمام معاملات کو تحمل سے سنبھالا۔را کے سابق سربراہ نے کانگریس رکن اسمبلی نوجوت سدھو کے پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گلے ملنے کے حوالے سے کہا کہ ’سدھو، جنرل باجوہ سے اسی طرح ملے جس طرح پنجابی ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور یہاں تو دونوں صرف پنجابی بھی نہیں بلکہ ہمارے ایک جٹ سکھ کی دوسرے ملک کے جٹ سے ملاقات تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’سدھو اور جنرل باجوہ اسی طرح ملے جس طرح عموماً ملا جاتا ہے اگر اس میں کوئی شرمندگی کا پہلو ہوتا تو وہ جنرل باجوہ کو متاثر کرتا کیوں کہ وہ تو وردی میں تھے‘۔اے ایس دولت نے کہا کہ جب آپ بات کاراستہ چھوڑ دیتے ہیں تو مطلب آپ اپنی راہیں مسدود کررہے ہیں جس کی وجہ سے ہم دوبارہ تشدد کا راستہ اپنا رہے ہیں، دنیا میں شاید کوئی دراندازی کا معاملہ طاقت اور ہتھیاروں کے استعمال سے حل ہوا ہو۔