پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 فروری2019ء) سرحد چیمبرکے صدر فیض محمد فیضی نے
پاکستان ریلوے سے ایس آر او ۔121 کے فوری خاتمہ کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ لوز کارگو کی اجازت دی جائے ۔ موجودہ ریلوے
پشاور ڈرائی پورٹ سمیت اضا خیل ڈرائی پورٹ کو فعال بنایا جائے ۔ غلط پالیسیوں کی وجہ سے اس وقت 70 فیصدپاک افغان تجارت
ایران کی بندرگاہوں چاہ بہار اور بندرعباس کو منتقل ہوچکی ہے۔
ریلوے روڈ ٹرانسپورٹ سے کئی زیادہ محفوظ اور موثر ذریعہ ترسیل ہے اور اسے جلد از جلد امپورٹ ایکسپورٹ کے لئے بحال کیا جائے
۔پاکستان ریلوے سے متعلق بزنس کمیونٹی کے مسائل کو ترجیحاتی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔ خیبر پختونخوا میں قالین ،ْ شہد ،ْ فرنیچر ،ْ ماچس ،ْ ہینڈ ی کرافٹ اور ماربل کی تجا رت کے وسیع مواقع موجود ہیں
پاکستان ریلوے اس ضمن میں تجارت کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔
(جاری ہے)
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ
پاکستان ریلوے
کراچی مظہر علی شاہ اور ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ
پاکستان ریلوے
پشاور ناصر خلیلی کے دورہ سرحد چیمبر کے موقع پر منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر سرحد چیمبر کی ڈرائی پورٹ اور
پاکستان ریلوے سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین ضیاء الحق سرحدی ،ْ انڈسٹریلسٹ ایسوسی ایشن حیات آباد
پشاور کے صدر زرک خان خٹک ،ْ خالد شہزاد ،ْ محمد آصف خان ،ْ مظہر الحق ،ْ آصف جمال ،ْ وحید باچا ،ْ عمار انصاری ،ْڈویژنل ٹرانسپورٹ آفیسر انور سادات اورچیف کنٹرول
ریلوے سرحد باچا بھی موجود تھے ۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سرحد چیمبر کے صدر فیض محمد فیضی نے کہاکہ بانڈڈ کیئریر کے ذریعے ترسیل میں تاجروں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں۔سرحد چیمبر کی ڈرائی پورٹ اور
ریلوے سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئر مین ،ْ ایف پی سی سی آئی کے ڈپٹی کنوینئرپاکستان
ریلوے اور ایف پی سی سی آئی کے
ریلوے ایڈوائزری بورڈ کے رکن ضیاء الحق سرحدی نے
پاکستان ریلوے کی موثر اور اچھی خدمات کو یاد دلاتے ہوئے بتایا کہ 2010ء سے پہلے
پاکستان ریلوے کارگو کے ذریعے اکا دکا چوری اور توڑ پھوڑ کے علاوہ کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا اورنہ کبھی ان 50سالوں میں
ریلوے کی کوئی ویگن غائب ہوئی جبکہ
ریلوے کے بعد این ایل سی کے ذریعے جو گڈز آئے تو ایک سکینڈل کے مطابق تقریبا28 ہزار کنٹینرز غائب ہوئے ۔
انہوں نے کہاکہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اس وقت 70 فیصدپاک افغان تجارت
ایران کی بندرگاہوں چاہ بہار اور بندرعباس کو منتقل ہوچکی ہے ۔انہوں نے کہاکہ
پاکستان ریلوے
پشاور تا
کراچی اور
کراچی تا پشاورافغان ٹرانزٹ ٹریڈ سمیت ایکسپورٹ اور امپورٹ کے مال پہنچانے کیلئے اقدامات اٹھائے۔ انہوں نے بھی SRO-121 کے خاتمہ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں قالین ،ْ شہد ،ْ فرنیچر ،ْ ماچس ،ْ ہینڈ ی کرافٹ اور ماربل کی تجا رت کے وسیع مواقع موجود ہیںاور
پاکستان ریلوے اس ضمن میں اس تجارت کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے ۔
انہوں نے کہاکہ
پشاور سے
کراچی ایکسپورٹ کارگوکا اجراء کیا جائے تویہ تمام مال بذریعہ ریلوے
کراچی جاسکتے ہیںجبکہ اگر گیتا (گڈز ان ٹرانزٹ ٹو
افغانستان) بذریعہ ریل
کراچی سے
پشاور شروع ہوجاتا ہے تو پھر اضا خیل ڈرائی پورٹ کو جلد از جلد فعال بنایا جائے اور اگر گیتا سروس شروع نہیں کی جاتی تو موجودہ
ریلوے ڈرائی پورٹ
پشاور کینٹ پر بزنس کمیونٹی کو سہولیات فراہم کی جائیں۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انڈسٹریلسٹ ایسوسی ایشن حیات آباد کے صدر زرک خان خٹک نے
ریلوے حکام سے مطالبہ کیا کہ
پشاور کو لوکیشنل ڈس ایڈوانٹیج کی وجہ سے باقی
پاکستان جتنا کرائے پر امپورٹ کرنے کے احکامات جاری کئے جائیں تاکہ
پشاور کے صنعتکار مارکیٹ میں Competitiveرہیں۔ زرک خان خٹک نے
ریلوے حکام کو خیبر پختونخوا کی صنعتوں کی جانب سے ماہانہ 5 سے 6 ہزار کنٹینرز کی تجارت کے مواقعوں کی پیش کش کی ۔
ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ
پاکستان ریلوے
کراچی مظہر علی شاہ اور ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ
پاکستان ریلوے پشاورناصر خلیلی نے یقین دلایا کہ تاجر برادری کے مسائل کو ترجیحاتی بنیادوں پر جلد از جلد حل کئے جائیں گے اور بہت سے غیر فعال چارسدہ اور درگئی روٹس کو فعال کیا جائے گا جس سے تجارت کو فروغ حاصل ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ
پاکستان ریلوے تجارت کی بحالی کیلئے اپنی خدمات کو بہتر بنا رہا ہے اور پہلی بار
پاکستان ریلوے کے حکام تاجر برادری سے بذات خود رابطہ کرکے اُن کے مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل میں کوشاں ہیں۔
انہوں نے اس امر کا اظہار بھی کیا کہ موثر کارکردگی اور بہتر لوکو موٹو سروسز کے متعاف کرنے کے باعث
پاکستان ریلوے
نقصان پر قابو پانے کے بعد منافع بخش مرحلے میں داخل ہوچکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ٹرانسپورٹ پالیسی 2018ء میں
پاکستان ریلوے کا کلیدی کردار ہے جو کہ مستقبل قریب میں حقیقت میں ڈھل جائے گا۔ انہوں نے سرحد چیمبر کے وفد کو بتایا کہ وہ ایس آر او ۔
121 کے خاتمہ کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے اور سرحد چیمبر سے بھی درخواست کی کہ وہ مزید متعلقہ فورمز پر بھی یہ مطالبہ اٹھائیں۔ انہوں نے
سی پیک کے تحت ML-1 کے منصوبہ کا بھی ذکر کیا جس سے 160کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے کارگو اور مسافر ٹرینیں چلائی جائیں گی جس سے
پاکستان ریلوے جدید ترین دور میں داخل ہوجائے گا۔ انہوں نے وی باک میں موجود خامیوں کو دور کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی۔
انہوں نے بتایا کہ موجودہ
پشاور ڈرائی پورٹ میں تمام تر سہولیات موجود ہیں اور وہ موجودہ تجارت کو خوش اسلوبی سے چلا سکتی ہیں اور تجارت کے حجم کے بڑھنے کے ساتھ ہی اضا خیل ڈرائی پورٹ کو بھی فعال کردیا جائے گا جس سے وادی
پشاور میں مردان ،ْ چارسدہ ،ْ صوابی ،ْ نوشہرہ ،ْ
پشاور اور حطار کی تجارتی ضروریات کو خوش اسلوبی سے پورا کیا جاسکے گا۔
انہوں نے بتایا کہ مستقبل میں تجارت کے حجم کو بڑھانے کیلئے
پاکستان ریلوے وقت کی پابندی کو یقینی بنائے گی تاکہ تاجروں کا اعتماد
پاکستان ریلوے پر بحال ہوسکے۔انہوں نے زرک خان کی جانب سے پیش کش کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ بہت جلد انڈسٹریلسٹ ایسوسی ایشن
پشاور کے وفد سے ملاقات کی جائے گی جس میں مجوزہ 5 سے 6 ہزار کنٹینرز کی تجارت کرنے کے لئے طریقہ
کار وضع کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ
ریلوے کی بحالی اور تجارتی حجم میں اضافہ ملک ،ْ قوم اور تاجر برادری کے وسیع تر مفاد میں ہے اور اس پر عملدرآمد جلد از جلد یقینی بنایا جائے گا۔