بحیرہٴ عرب میں تیل کا اخراج ،مبارک ولیج کے قریب آبی حیات کو سنگین خطرہ لاحق

پیر 18 مارچ 2019 23:27

ٍکراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 مارچ2019ء) جامعہ کراچی کے سینٹر آف ایکسلینس ان میرین بائیولوجی کی تحقیق کے مطابق بحیرہٴ عرب میں تیل کے اخراج کے باعث مبارک ولیج کے قریب پائی جانے والی آبی حیات کو سنگین خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق جب سے پورٹ قاسم پر کوئلے کی ترسیل کا آغاز ہوا ہے اور بائیکو اور ہبکو پلانٹ کا قیام عمل میں آیا ہے ساحلی پٹی کے اطراف موجود آبی حیات کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔

مبارک ولیج کے رہنے والوں کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اس سے پہلے جب وہ سمندر سے مچھلیاں پکڑتے تھے تو وہ زندہ ہوتی تھیں لیکن اب آلودگی پھیلنے کی وجہ سے ہر جگہ مردہ مچھلیوں کا ڈھیر پایا جاتا ہے۔سینٹر آف ایکسلینس ان میرین بائیولوجی جامعہ کراچی کی ڈاکٹر شہنا زراشد کاکہنا ہے کہ اگر ہم دیکھیں تو پاکستان کی ساحلی پٹی تقریباً ایک ہزار پچاس کلومیٹر طویل ہے جس کی گہرائی تین سو میل کے قریب ہے جس کی مناسبت سے ہماری مچھلیوں کی برآمدات ایک اعشاریہ دو بلین سے ایک اعشاریہ چار بلین ڈالر کے درمیان ہونی چاہئیے لیکن فیکٹریوں کے فضلے اور بڑھتی ہوئی سمندری آلودگی کے باعث بدقسمتی سے یہ برآمدات اب صرف ساڑھے تین سو ملین ڈالر کے قریب رہ گئی ہیں۔

(جاری ہے)

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہم صرف خراب مال دوسرے ملکوں میں برآمد کر رہے ہیں۔تیل کے اخراج کی سب سے پہلے خبر ان مچھیروں کو ہوئی تھی جو مقامی مچھیروں کے ساتھ مل کر عبدالرحمان گوٹھ میں مچھلیاں پکڑتے ہیں۔ ہمیں اس کے برخلاف ایسی اطلاعات بھی ملی ہیں کہ کچھ لوگوں کے مطابق تیل کا یہ اخراج کسی پائپ لائن کے پھٹنے کے باعث یا گزرنے والے بحری جہازوں سے ہوا ہے۔

اس کا سب سے بڑا نقصان مقامی مچھیروں کو ہوا ہے جن کی گزر بسر ان سمندری مچھلیوں کی بیرون ملک فروخت سے ہوتی ہے۔ لیکن اس سانحے کے بعد یہ لوگ ایک بڑے عرصے کے لیے بیروزگار ہو گئے ہیں۔ انھیں اس بات کا بھی اندازہ نہیں ہے کہ اس مسئلے کے حل میں کتنا عرصہ لگے گا اور کب وہ اپنا روزگار بحال کر سکیں گے۔موجودہ صورتحال کے باعث ان کے آلات جن میں مچھلیاں پکڑنے کے جال بھی شامل ہیں ناکارہ ہو چکے ہیں۔

دوسرا بڑا نقصان جس کا سامنا مقامی لوگوں کو ہے وہ ماحولیاتی آلودگی ہے جس کی وجہ سے علاقے کے لوگ متعدد بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔مبارک ولیج جو کبھی پکنک کے لیے بہترین مقام سمجھا جاتا تھا اس آلودگی کی وجہ سے بدترین صورتحال میں ہے اور اب وہاں کوئی بھی پکنک منانے جانا نہیں چاہتا۔محققین نے اس سلسلے میں مقامی اتھارٹیز کو کئی خطوط بھی لکھے ہیں تاکہ روک تھام کے لیے ایکشن لیا جا سکے۔اب اس فورم کے توسط سے دوسرے لوگوں کو بھی موقع مل رہا ہے کہ وہ اس معاملے پر آواز اٹھائیں تاکہ جلد سے جلد اس صورتحال کے سدباب کے لیے کچھ کیا جا سکے۔ #