سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ کا اجلاس

گلگت بلتستان اور ہزارہ ڈویژن میں کم موبائل سگنل ، کم رفتار انٹر نیٹ اور کم تعداد میں موبائل ٹاورز کے حوالے سے جائزہ لیا گیا پی ٹی اے کے ملازمین کی تفصیلات، تعمیراتی میٹریل کیلئے پی ایس کیو سی اے سے سرٹیفکیٹ کے حصول کے پابند بنانے اور اسلام آباد سیف سٹی منصوبے پر بریفنگ

جمعرات 23 مئی 2019 17:27

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 مئی2019ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ کا اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں گلگت بلتستان اور ہزارہ ڈویژن میں کم موبائل سگنل ، کم رفتار انٹر نیٹ اور کم تعداد میں موبائل ٹاورز ، بہتری کیلئے اٹھائے گئے اقدامات ، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ملازمین کی تفصیلات ، ہایئر کیے گئے ٹیکنکل سٹاف ،تعمیراتی میٹریل کیلئے پی ایس کیو سی اے سے سرٹیفکیٹ کے حصول کا پابند بنانا ،آئی جی پولیس اور ڈپٹی کمشنر سے اسلام آباد کے سیف سٹی منصوبے پر بریفنگ کے علاوہ پی ٹی اے اور ایف بی آر سے سیلولر کمپنیوں کے گزشتہ پانچ سالہ منافع و نقصانات کی تفصیل اور سینیٹر مشتاق احمد کے 8 مئی2019 کو اٹھائے گئے سوال برائے انٹرنیٹ ٹریفک مانیٹرنگ معاہدہ کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

(جاری ہے)

چیئرمین کمیٹی سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ ہزارہ ڈویژن اور گلگت بلتستان میں موبائل سگنل اور انٹر نیٹ کی رفتار کا بہت زیادہ مسئلہ ہے ۔وفاقی دارالحکومت کی پہاڑیوں کی دوسری طرف بھی سگنل نہیں ملتے ، ہری پور ، غازی ، بالاکوٹ ، بٹ کنڈی ،بابو سر وغیرہ میں سگنل نہیں ہوتے ۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبوں کی وجہ سے شمالی علاقہ جات میں ملک کے اہم منصوبے ہیں ۔

داسو ، بشام، دوبیر اور گلگت بلتستان کے کئی علاقوں میں موبائل سگنل نہیں ملتے ۔ انہوں نے کہا کہ یو ایس ایف فنڈ کسی مقصد کیلئے حکومت نے بنایا تھا کہ ان علاقوں میں سروسز کیلئے کام کیا جائے ۔ان علاقوں میں جرائم کی شرح بھی زیادہ ہے ۔جس پر وزیر انچارج کیبنٹ ڈویژن سینیٹر اعظم خان سواتی نے بتایا کہ 2004 میں سیلولر موبائل پالیسی بنائی گئی اور یو ایس ایف فنڈبھی اسی مقصد کیلئے تھا کہ ان غیر ترقی یافتہ علاقوں میں کام کیا جائے ۔

گلگت بلتستان کونسل میں یو ایس ایف کمپنی قائم کی گئی تھی جو انڈر سروڈ علاقوں کو دیکھے ۔2016 میں پی ٹی اے نے ایک سروے کیا جس کے مطابق کے کے ایچ کے علاقوں میں تسلی بخش کام نہیں تھا۔ 2017 میں پی ٹی اے نے دوبارہ سروے کرایا کچھ بہتری سامنے آئی ۔کمیٹی سفارش کرے کہ ان علاقوں میں تھری جی ، فور جی سروسز شروع کرائی جائیں ۔انہوںنے کہا کہ 35 ملین وزارت اور 18 ملین پی ٹی اے نے دینا ہے تاکہ تھری جی اور فوری جی فعال ہو سکے ۔

چیئرمین پی ٹی اے نے سینیٹر طلحہ محمود کے تحفظا ت سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ موبائل آپریٹرز کو2004 میںلائسنس جاری کیے تھے اور ان کی شرائط کے مطابق ان سے کام لیا جارہاہے ان لائسنس تجدید کیلئے آئیں گے تو ان پر ذمہ داری ڈالی جائے گی کہ تحصیل ہیڈکوارٹر کے ساتھ ساتھ پوری تحصیل کیلئے کام کریں ۔ کے کے ایچ کیلئے منصوبہ منظور ہو چکا ہے ۔ جس پر وزیر انچارج کیبنٹ ڈویژن نے کہا کہ پرائیوٹ کمپنیوں او ر آپریٹرز کا مقابلہ ہونا چاہیے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سی پیک منصوبہ ملک کی ترقی و خوشحالی کیلئے بہت بڑا منصوبہ ہے اور حکومت کے اہم منصوبے ان علاقوں میں ہے جن میں دو بڑے ڈیم بھی شامل ہیں اور سیاحت بھی بہت زیادہ ہے جو حکومت کا نعرہ بھی ہے ۔ قائمہ کمیٹی نے ہدایت کی کہ یو ایس ایف کے مقصد کو پورا کیا جائے اور سیلولر کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ ان علاقوں میں موثر سروس فراہم کی جائے اور بہتری کیلئے پی ٹی اے سی20 دن میں پروگرام تیار کر کے رپورٹ دینے کی ہدایت کی گئی ۔

انٹر نیٹ ٹریفک کی مانیٹرنگ کے حوالے سے اسرائیلی انٹیلی جنس کمپنی کے ساتھ معاہدے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ سینیٹر مشتاق احمد نے جن تحفظا ت کااظہار کیا تھا پی ٹی اے نے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا ۔ پی ٹی اے توہین آمیز اور فحاشی و عریانی کے مواد کو چیک کرتی ہے ۔ سینڈ وائن کمپنی امریکہ کی کمپنی ہے اس سے سکیورٹی کے حوالے سے انڈ ر ٹیکنگ حاصل کی گئی ہے ۔

اس کمپنی سے سریٹفکیٹ حاصل کر رکھا ہے اور آئی ایس آئی کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لیا گیا ہے اور وہ بھی اس کی مانیٹرنگ کر رہی ہے۔ وزیر انچارج کیبنٹ ڈویژن نے کہا کہ اس کمپنی کے 100 سے زائد ممالک کے ساتھ انٹر نیٹ ٹریفک مانیٹرنگ کے معاہدات ہیں جن میں سعودی عرب ، ایران ، ترکی ، یو اے ای تک شامل ہیں ۔ یہ کمپنی غیر معمولی مہارت رکھتی ہے۔

چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ اس کمپنی کا اسرائیل کی انٹیلی جنس سے کوئی تعلق نہیں یہ امریکہ کی کمپنی ہے ۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ اسلام آباد سیف سٹی کے منصوبہ کی ایک بولی 75 ملین ڈالر کی تھی۔24 ملین ڈالر کی دی گئی نادرا نے گڑ بڑکی ہے کس طرح وہ پروکیورمنٹ کر سکتے ہیں ۔ڈی آئی جی اسلام آباد نے کمیٹی کو بتایا کہ نادرا نے ہواوے کمپنی کے ذریعے اس منصوبے پر کام کیا ہے اور ہواوے مینٹنس کاکام بھی کر رہا ہے ۔

1850 کیمرے اسلام آباد کی مانیٹرنگ کیلئے لگے ہیں جس میں سے ڈیڑھ سو کے قریب درست کام نہیں کر رہے ہیں ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 75 ملین ڈالر کے منصوبے کو 124 ملین ڈالر میں ایوارڈ کیا گیا ۔1944 کیمروں میں سے صرف1650 کیمرے کام کر رہے ہیں اس منصوبے کی اصل فائل حاصل کر کے آئی جی پولیس اسلام آباد اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد انکوائری کریں۔

اس منصوبے کی اصل اسٹیک ہولڈر پولیس ہے مگر انہیں ہی علیحدہ رکھا گیا ہے ۔ڈی سی اسلام آباد نے کمیٹی کو بتایا کہ میریٹ بم دھماکے کے بعد سیف سٹی منصوبے کا آئیڈیا لیا گیا ۔ 2016 میں منصوبے پر کام شروع ہوا اور دسمبر2018 مکمل ہوا ۔اس شہر کی اہم عمارتوں کی مانیٹرنگ کی جارہی ہے ۔2016 سے اب تک30 لاکھ فون اٹینڈ کیے گئے جس میں سی1.3 لاکھ سیکورٹی کے حوالے سے تھے ۔

روزانہ 32 ہزار ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔ 4 سمارٹ کاریں کسی بھی جگہ کی لائیو کوریج فراہم کر سکتی ہیں ۔ ان کیمروں کی وجہ سے جرائم میں کچھ کمی تو ہوئی ہے ۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس معاملے کو چیئرمین نادرا کے ساتھ مل کر کلیئر کرنا چاہیے اور اس کمپنی کو بلیک لسٹ کرنا چاہیے ۔ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس نے کہا کہ اس کی ٹیکنیکل ایولوایشن ہونی چاہیے۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سیلولر کمپنیوں کے منافع اور نقصانات کے معاملے کابھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا یہ کمپنیاں جتنے عرصے سے کام کر رہی ہیں اور مسلسل اپنا نقصان ظاہر کر رہی ہیں تو ان کو بند ہوجانا چاہیے تھا مگر حقیقت ایسی نہیں ہے یہ کمپنیاں اصل پرافٹ کو ظاہر نہیں کر رہی ۔ ٹیکنیکل فیس اور رائیلٹی کہا ں دی جا رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ متعلقہ ساز و سامان کی جب ایل سی کھلتی ہے اس میں ہیر پھیر کی جاتی ہے ۔50 ہزار کی چیز کو 50 لاکھ ظاہر کیا جاتا ہے اس کی مانیٹرنگ ہونی چاہیے اس کیلئے ایک موثر میکنزم بنانا چاہیے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پاکستانی ڈالر جو باہر کے ممالک میں جار ہا اس کو چیک کرکے کمیٹی کو رپورٹ فراہم کی جائے ۔وزیر انچارج اعظم خان سواتی نے کہا کہ پی اسی کیو سی اے میں کرپشن ہے جلد وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مل کر ان کے مسائل بارے آگاہ کروں گا ۔

انہوں نے کہا کہ ای پروکیورمنٹ پر جانے کی ضرورت ہے تاکہ کرپشن کو ختم کیا جا سکے ۔اس ادارے کے 54 انسپکٹرز ہیں ۔کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز نجمہ حمید ، روبینہ خالد ، نصیب اللہ بازئی ، ڈاکٹر اسد اشرف ، ڈاکٹر اشوک کمار ، سیمی ایزدی اور مشتاق احمد کے علاوہ وزیر انچار ج کیبنٹ ڈویژن سینیٹر اعظم خان سواتی ، سیکرٹری سائنس ٹیکنالوجی نسیم نواز ، ڈی جی پیپرا محمد زبیر ، چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل (ر) عامر عظیم ، ممبر ایف بی آر سیمہ شکیل ، کمشنر ایل ٹی یو امجد زبیر ٹوانہ ،ڈی سی اسلام آباد محمد حمزہ اور ڈی آئی جی اسلام آبا دپولیس کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکا م نے شرکت کی۔