ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ اور مولانا کے ساتھ ڈبل گیم کھیلنے کی کوشش

ن لیگ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کو یقین دلارہی ہے کہ ہم دھرنے میں مولانا کے ساتھ نہیں ہیں لیکن دوسری طرف مولانا کو کہہ رہے ہیں کہ تسی کام چک کے رکھو۔۔ ارشاد عارف کا انکشاف

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان پیر 7 اکتوبر 2019 10:36

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی  اسٹیبلشمنٹ اور مولانا کے ساتھ ڈبل گیم کھیلنے ..
اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔07 اکتوبر2019ء) معروف صحافی ارشاد عارف کا کہنا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کو یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ ہم مولانا کے دھرنے میں شریک نہیں ہوں گے، ان کا ساتھ نہیں دیں گے اور نہ ہی جمہوریت ڈی ریل ہونے دیں گےکیونکہ ہم بھی ملک میں عدم استحکام نہیں چاہتے۔جب کہ دوسری طرف یہ مولانا کو یقین دلا رہے ہیں کہ مولانا تسی کام چک کر رکھو۔

انہوں نے کہا کہ ن لیگ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کو یقین دلارہی ہے کہ ہم دھرنے میں مولانا کیساتھ نہیں ہیں لیکن اندرکھاتے مولانا کو کہہ رہی ہے کہ چڑھ جا بیٹا سولی پہ رام بھلی کرے۔ارشاد عارف نے کہا کہ لیگ اور پیپلز پارٹی دو عملی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ اپوزیشن ایسا کیوں کر رہی ہے کیونکہ نواز شریف بھی دھرنے کا بھرپورحمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔

(جاری ہے)

ن لیگ مولانا فضل الرحمن کا نہ صرف سیاسی ساتھ دے رہے ہیں بلکہ ان کو مالی طور پر بھی سپورٹ کر رہے ہیں۔اس دہری پالیسی کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی فائدہ ہوتا ہے تو ہمیں بھی ہو گا لیکن اگر نقصان ہوا تو اس میں ہم حصے دار نہیں بنیں گے وہ مولانا خود بھگتیں گے۔جب کہ دوسری جانب سینئر تجزیہ کاراور صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ مولانا کوحکومتی لوگ ملے ،بدتمیزی کیاور تلخ کلامی ہوئی، میرا خیال ہے کہ اگر ان سے پیارسے بات کی جاتی تو ہوسکتا ہے وہ مان جاتے،مولانا کو کہا گیا کہ ہم آپ کی ایسی تیسی مار دیں گے مولانانے بھی کہا پھر جو کرنا کرلو۔

انہوں نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں انتہائی احتیاط کے ساتھ یہ بتا سکتا ہوں کہ میڈیا یہ بتا رہا تھا کہ شہباز شریف اور بلاول مولانا کو ملنے جائیں گے ، شیخ رشید اور فردوس عاشق بھی دعویٰ کررہے تھے کہ یہ دونوں پارٹیاں مولانا فضل الرحمان کو منا لیں گی۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کو وقتی طور پر مصروف رکھا گیا۔ انہو ں نے کہا کہ میں یہ بتا دوں کہ حکومت کے کچھ لوگوں نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی، حکومتی لوگوں نے مولانا فضل الرحمان سے بدتمیزی کی اور تلخ کلامی بھی ہوئی۔ اگر ان سے پیارسے بات کی جاتی تو ہوسکتا ہے وہ مان جاتے۔لیکن جب بدتمیزی کریں گے توان کا فیصلہ تبدیل نہیں کرواسکتے۔