ایم کیو ایم کی حکومت سے مذاکرات میں بڑی مانگ

ایم کیو ایم کی جانب سے گزارش کی گئی کہ انکے مختلف علاقوں میں 58 دفاتر کھولنے کی اجازت دی جائے، جن میں صرف 2 دفاتر کو سکیورٹی اداروں نے کھولنے کی اجازت دی تھی: عمران یعقوب کا انکشاف

Usama Ch اسامہ چوہدری اتوار 19 جنوری 2020 13:17

ایم کیو ایم کی حکومت سے مذاکرات میں بڑی مانگ
کراچی (اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین 19 جنوری 2020) : ایم کیو ایم کی حکومت سے مذاکرات میں بڑی مانگ، یہ مذاکرات صرف یقین دہانی کے لیے تھے، جس میں وزارت کی یقین دہانی کرائی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ کہ ایم کیو ایم کے دفاتر بھی کھولے جائینگے۔ تفصیلات کے مطابق ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹر ویو دیتے ہوئے سینئر صحافی عمران یعقوب خان کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز جو مذاکرات ہوئے تھے اس میں ایم کیو ایم کو وزارت دینے کی بھی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے گزارش کی گئی کہ انکے مختلف علاقوں میں 58 دفاتر کھولنے کی اجازت دی جائے، جن میں صرف 2 دفاتر کو سکیورٹی اداروں نے کھولنے کی اجازت دی تھی جو کہ نجی بلڈنگ میں موجود تھے، ایک لیاری والا اور دوسرا گلستان جوہر والا۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے سینئر رہنما اور وزیردفاع پرویز خٹک نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان سے مذاکرات کے بعد کہا تھا کہ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے اور جلد خوش خبری مل جائے گی۔

بہادر آباد میں ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی دفتر میں مذاکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پرویز خٹک نے کہا تھا کہ ایم کیو ایم ہمارے اتحادی تھے اور رہیں گے، جلد ہی خوش خبری ملے گی اور کبھی جدا نہیں ہوں گے، اس حوالے سے تھوڑی بہت غلط فہمیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ آج خوش اسلوبی سے ہماری گفتگو ہوئی، جو مسائل تھے وہ بھی زیر بحث آئے اور بہت نزدیک ہم پہنچ گئے، میں پوری وفد کی صورت میں انہیں یقین دلانے آیا ہوں اور اسلام آباد میں جلد مل رہے، جو کام اور کمی رہ گئی ہے ان شااللہ اس کو پورا کریں گے۔

پرویز خٹک نے کہا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ ہمارے یہاں آنے کو یہ قبول کریں گے اور ہم ان کو واپس آنے کی دعوت بھی دیں گے اور اس کا فیصلہ یہ خود کریں گے کیونکہ کچھ مسائل ہیں جن کو زیر بحث لانا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ ایسا کوئی بڑا مسئلہ رہا نہیں ہے، چھوٹی چھوٹی باتیں بھی حل ہوجائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ میں سارے ملک کو یاد دہانی کرانا چاہتاہوں کہ سارے اتحادیوں سے ہم بات کرچکے ہیں، کوئی بھی ہمیں چھوڑ کر نہیں جارہا ہے، ہم اکٹھے رہیں اور 5 سال اکٹھے گزاریں گے۔

ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا تھا کہ ہم نے پی ٹی آئی کی حکومت بنی تھی تو غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا تھا اور پچھلے دنوں جب پریس کانفرنس کی تو ہم نے اس وعدے کا اعادہ کیا تھا اور تمام مسائل سے ان کو آگاہ بھی کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو مسائل جو سندھ کے شہری علاقوں اور کراچی سے وابستہ ہیں اور ان مسائل سے بھی آگاہ کیا تھا جن کی پورے پاکستان کو ضرورت ہے، ہم نے نقطہ نظر حکومت میں شامل ہونے سے پہلے پی ٹی آئی کے سامنے رکھا تھا۔

پی ٹی آئی کے وعدوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے درمیان گفتگو ہوئی اور کچھ نکات میں اتفاق ہوا، کچھ کی زبان میں تھوڑی تبدیلی کی، وہ ہمارے مطالبے بن گئے اور پی ٹی آئی نے ان سے اتفاق کیا تو وہ وعدے بن گئے۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا تھا کہ آج ہم سب اور پی ٹی آئی بھی گواہ ہے جس کے اندر کوئی شخصی یا جماعتی مفاد نہیں ہے، ہم پریشان اس لیے تھے کہ گزشتہ 11 سال میں سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ معاشی دہشت گردی اور اٹھارویں ترمیم کے نتیجے قوم کو جو نقصان دیا گیا، جس ترمیم سے اختیارات میں اضافہ ہونا تھا لیکن کمی ہوئی اور سندھ نزاع کی حالت میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کے معاملات فوری نوعیت کے ہیں، کم از کم وہ علاقے اور شہر جو اپنی ذمہ داری پوری کرہے ہیں جن کے تاجر، دکاندار، صنعت کار اپنی ذمہ داری پوری کررہے ہیں اور ٹیکس دے رہے ہیں، پاکستان کو چلانے کے لیے 65 فیصد سے زائد ٹیکس دے رہے ہیں ان کے لیے کہیں سے امداد اور بھیک مانگنی نہیں پڑے گی اور میرے خیال میں ہم سب کو اس کا جواب دینا پڑے گا۔

ایم کیو ایم کے سربراہ نے کہا تھا کہ آج بھی بہت حوصلہ افزا اور تیزی سے جو بات چیت ہوئی ہے اس میں قدم آگے بڑھے ہیں، ناراضی کے معاملات نہیں ہیں لیکن ہم نے کہا ہے جو چیزیں آج بھی طے ہوئی ہیں جلد سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کو تسلی اور اطمینان اور فوری ریلیف دینے کے لیے بہت ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آنے والے چند مہینوں، چند ہفتوں یا دنوں میں بھی اس حوالے سے واضح پیش رفت آپ سب کو نظر آئے گی۔قبل ازیں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کا وفد ناراض اتحادی جماعت ایم کیو ایم کو منانے کے لیے ایک ہفتے میں دوسری مرتبہ بہادرآباد مرکز پہنچ گیا ہے جہاں دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات ہوئے۔