چینی فورنزک رپورٹ،جہانگیر ترین، زرداری، شریف خاندان ، چوہدری برادران سمیت چھ بڑے گروپس نے فراڈ اور ہیرا پھیری کی، کمیشن رپورٹ

جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو ملز پاکستان میں چینی کی پیداوار کا سب سے بڑا گروپ ہے ،مبینہ طور پر غیر قانونی طور پر سب سے زیادہ پیداواری صلاحیت بڑھائی ، گنے والے کسان کو مسلسل نقصان پہنچایا گیا، انھیں لوٹا گیا، شوگر ملز نے انتہائی کم داموں میں کاشتکار کو قیمت ادا کی ہے، ملز مالکان نے جس وقت 140 روپے سے کم قیمت پر گنا خریدا اس وقت سپورٹ پرائز 190 روپے بنتی تھی، شہزاد اکبر سندھ کے وزیر اعلیٰ نے اومنی گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے نو اعشاریہ تین ارب روپے کی سبسڈی دی ہے،کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مل مالکان نے پیداواری قیمت بڑھائی اور آڈٹ کے مطابق چینی کی فی کلو قیمت پر اوسطاً 13 روپے کا فرق سامنے آیا ہے، کمیشن رپورٹ میں درج ہے کہ بے نامی ٹرانزیکشن ہوئی ہیں، جو ٹیکس چوری کا معاملہ ہے۔ مل مالکان نہ روڈ ڈویلپمنٹ دے رہے ہیں اور نہ سیلز ٹیکس دے رہے ہیں،معاون خصوصی جس قسم کے جھوٹے الزامات مجھ پر لگائے گئے ہیں سن کر دھچکا لگا، میں نے ہمیشہ صاف شفاف کاروبار کیا ہے، جہانگیر ترین پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ کسی شوگر مل کے بورڈ یا مینجمنٹ میں شامل نہیں ہوں، کمیشن کی قانون سازی کے لیے سفارشات کی حمایت کرتا ہوں، مونس الٰہی

جمعرات 21 مئی 2020 22:54

چینی فورنزک رپورٹ،جہانگیر ترین، زرداری، شریف خاندان ، چوہدری برادران ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 مئی2020ء) وفاقی کابینہ نے چینی بحران سے متعلق فارنزک رپورٹ عام کر دی ہے جس میں پاکستان کے نو بڑے گروپس کی ملز کی آڈٹ کی تفصیلات شامل ہیں۔کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی اہم کاروباری شخصیت جہانگیر ترین، سابق حکمران شریف خاندان، گجرات کے چوہدری برادران، وفاقی وزیر اسد عمر، پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے ’فراڈ اور ہیرا پھیری کی ہے۔

جمعرات کو بی بی سی کے مطابق وفاقی کابینہ نے چینی بحران سے متعلق فارنزک رپورٹ عام کر دی ہے جس میں پاکستان کے نو بڑے گروپس کی ملز کی آڈٹ کی تفصیلات شامل ہیں۔کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی اہم کاروباری شخصیت جہانگیر ترین، سابق حکمران شریف خاندان، گجرات کے چوہدری برادران، وفاقی وزیر اسد عمر، پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے ’فراڈ اور ہیرا پھیری کی ہے۔

(جاری ہے)

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ سے واضح ہو جاتا ہے کہ شوگر ملز مالکان نے عام آدمی اور کسان کے ساتھ فراڈ کیا ہے اور انھیں لوٹا ہے۔انہوںنے کہاکہ وزیر اعظم یہ بات کرتے تھے کہ جو کاروباری ہوتے ہیں وہ حکومت میں نہیں ہوسکتے،یہ مفاد کا تضاد ہوتا ہے، اس حوالے سے آج پاکستان کی تاریخ کا اہم دن ہے۔

شہزاد اکبر نے بتایا کہ کمیشن رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو ملز پاکستان میں چینی کی پیداوار کا سب سے بڑا گروپ ہے اور یہ کہ انھوں نے مبینہ طور پر ’غیر قانونی طور پر سب سے زیادہ پیداواری صلاحیت بڑھائی ہے۔اس سے متعلق شہزاد اکبر نے کہا کہ پیداواری صلاحیت کے اعتبار سے جے ڈی ڈبلیو نے قانون کی خلاف ورزی میں تقریباً آٹھ نو ملز تک کا اضافہ کیا ہے،رپورٹ میں شوگر کی پروکیورمنٹ سے لے کر شوگر برآمدات تک سب چیزوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

ان الزامات کے سامنے آنے کے بعد جہانگیر ترین نے ٹویٹ میں کہا کہ جس قسم کے جھوٹے الزامات مجھ پر لگائے گئے ہیں ان کا سن کر دھچکا لگا۔ میں نے ہمیشہ صاف شفاف کاروبار کیا ہے۔ پورا ملک جانتا ہے کہ میں نے ہمیشہ کاشتکار کو پوری قیمت دی ہے۔ میں دو کھاتے نہیں رکھتا۔انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ہر الزام کا جواب دیں گے۔مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الہٰی نے کہا ہے کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ کسی شوگر مل کے بورڈ یا مینجمنٹ میں شامل نہیں ہوں، کمیشن کی قانون سازی کے لیے سفارشات کی حمایت کرتا ہوں۔

شہزاد اکبر کے مطابق کمیشن رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ گنے والے کسان کو مسلسل نقصان پہنچایا گیا، انھیں لوٹا گیا، شوگر ملز نے انتہائی کم داموں میں کاشتکار کو قیمت ادا کی ہے۔ ملز مالکان نے جس وقت 140 روپے سے کم قیمت پر گنا خریدا اس وقت سپورٹ پرائز 190 روپے بنتی تھی۔انھوںنے بتایا کہ تحقیقات کے بعد اس گنے کی قیمت میں اس وقت اضافہ کیا گیا جب حکومت نے کمشن بنانے کا اعلان کیا۔

‘ شہزاد اکبر کے مطابق مل مالکان نے عوام کے ساتھ زیادتی کی ہے اور انھیں لوٹا ہے‘شہزاد اکبر نے بتایا کہ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مل مالکان نے پیداواری قیمت بڑھائی اور آڈٹ کے مطابق چینی کی فی کلو قیمت پر اوسطاً 13 روپے کا فرق سامنے آیا ہے۔ان کے مطابق کمیشن کا کہنا ہے کہ 2018 میں ملز کی طرف سے 52 روپے چھ پیسے قیمت رکھی گئی جبکہ یہ 40 روپے چھ پیسے بنتی تھی۔

شہزاد اکبر نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’ملز نے 2019-20 میں یہ قیمت 62 روپے مقرر کی جبکہ کمیشن کے مطابق یہ قیمت صرف 46 روپے چار پیسے بنتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ کمیشن کے مطابق گنا کم قیمت پر خرید کر کاغذوں میں زیادہ قیمت دکھائی گئی ہے، ملز نے اپنے نقصان کو بھی اس پیداواری قیمت میں دکھایا ہے تاہم شوگر کمیشن نے مل مالکان کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا ہے۔

شہزاد اکبر کے مطابق کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’پیداواری قیمت میں ہر سال 12 سے 13 روپے کا فرق نظر آ رہا ہے، چینی کا بحران پیدا کرنے کے لیے دانستہ ہیرا پھیری کی گئی ہے، جس کا فائدہ مل مالکان اور نقصان عوام کو ہوتا ہے۔شہزاد اکبر نے چینی کی مارکیٹ میں ڈیلیوری کے حوالے سے سٹے کے طریقہ کار پر بات کی کہ اس پر کمیشن نے تفصیل سے لکھا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شوگر کمیشن بننے کی وجہ سے کاروباری حضرات کو جوے اور سٹے میں نقصان ہوا ہے۔ تحقیقات کا آغاز نہ ہوتا تو ابھی چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہونا تھا۔شہزاد اکبر نے رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چار یا پانچ فیصد گنا گڑ کیلئے بھی رکھ دیں تو پھر بھی باقی 25 فیصد مقدار کہاں گئی اس کے بارے میں معلومات نہیں دی گئیں۔شہزاد اکبر کے مطابق ایک عشاریہ سات ملین ٹن چینی رپورٹ ہی نہیں کی گئی۔

مل مالکان نے دو دو کھاتے رکھے ہوئے ہیں۔ ایک وہ جو اداروں کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کے لیے کہ حقیقت میں کتنا فائدہ ہوا ہے۔انھوں نے بتایا کہ کمیشن رپورٹ میں درج ہے کہ بے نامی ٹرانزیکشن ہوئی ہیں، جو ٹیکس چوری کا معاملہ ہے۔ مل مالکان نہ روڈ ڈویلپمنٹ دے رہے ہیں اور نہ سیلز ٹیکس دے رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ تمام ملز نے کرشنگ کی صلاحیت کو بڑھایا ہے،پہلے اس کے لیے اجازت چاہیے ہوتی ہے۔

مختلف ملز نے دس ہزار سے لے کر 65 ہزار تک پیداواری صلاحیت بڑھا دی یعنی آٹھ نو ملز بغیر اجازت کے لگا دی گئی ہیں۔‘ اس ضمن میں انھوں نے جہانگر ترین کا نام بھی لیا ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ اس طریقے سے یہ اکاؤنٹس فراڈ ہوا ہے۔شہزاد اکبر نے الزام عائد کیا کہ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سندھ کے وزیر اعلیٰ نے اومنی گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے نو اعشاریہ تین ارب روپے کی سبسڈی دی ہے۔

انہوںنے کہاکہ گذشتہ پانچ سال میں 29 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے، اس عرصے میں مل مالکان نے 52 ارب روپے کا انکم ٹیکس دیا، جس میں سے 29 ارب کی سبسڈی میں چلے گئے۔ اس میں 12 ارب ریفنڈ ہوئے اور اس طرح کل انکم ٹیکس صرف دس ارب روپے دیا گیا ہے۔شہزاد اکبر نے کہاکہ شوگر ملز اس وقت اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہیں۔ مسابقتی کمیشن اس کارٹلائزیشن کو توڑنے میں ناکام رہا ہے،کچھ ملز کا فورنزک آڈٹ کیا گیا ہے،خچھ بڑے گروپس جو 51 فیصد شوگر پیدا کرتے ہیں،ان چھ گروپس کے نمونے لے کر فورنزک کیا گیا۔

ان کے مطابق ان ملز میں سے سب سے زیادہ حصہ یعنی 20 فیصد جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو ملز گروپ کا ہے۔ اس میں ہونے والی خلاف ورزیوں سے متعلق عید کے بعد وزیر اعظم کی ہدایت پر سفارشات تیار کی جائیں گی۔شہزاد اکبر کے مطابق اس بات کا بھی فیصلہ کیا جائے گا کہ اس فراڈ کے خلاف کون سا ادارہ ان مل مالکان کے خلاف کارروائی کرے۔شہزاد اکبر کے مطابق کمیشن رپورٹ کے مطابق اس وقت حکومتی ادارے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ وزیر اعظم عمران خان نے ان کی ذمہ داری لگائی ہے کہ اس حوالے سے سفارشات تیار کی جائیں کہ ایف بی آر، نیب، ایف آئی اے، مسابقتی کمیشن اور دیگر اداروں میں کس قسم کی اصلاحات متعارف کرانا ضروری ہیں۔تحقیقات میں الزام عائد کیا گیا کہ جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو‘ شوگر ملز اورجے کے کالونی- II کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ سال 2018-19 کے دوران سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کی شوگر ملز کو پہنچایا گیا ہے۔

جے ڈی ڈبلیو نے کل چینی کی پیداوار 640278 ٹن کی جس میں سے 121621 برآمد کی گئی جو کل برآمدات کا15.53 فیصد بنتا ہے، جہانگیر ترین کو حکومت کی طرف سے 56 کروڑ سے زائد سبسڈی ملی جو کل دی گئی سبسڈی کا 22.52 فیصد بنتا ہے۔جہانگیر ترین کی ہی جے کے کالونی- II نے 70815 ٹن چینی کی پیداوار کی اور 1000 ٹن برآمد کر لی اور پھر اس پر مزید سبسڈی بھی حاصل کی۔وفاقی وزیر خسرو بختیار کے قریبی رشتہ دار کے آر وائی کے گروپ نے 31.17 فیصد چینی برآمد کی اور 18.31 فیصد سبسڈی حاصل کی جو 45 کروڑ سے زائد بنتی ہے۔

دیگر کمپنیوں میں الموئیز انڈسٹریز اورتھل انڈسٹری کارپوریشن‘ ہیں جنھیں کل سبسڈی کا 16.46 فیصد دیا گیا۔کمیشن رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد جہانگیر ترین نے ٹوئٹر پر اپنا موقف دیتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں تین ارب روپے کی ملنے والی سبسڈی میں سے ڈھائی ارب کی سبسڈی مسلم لیگ ن کے گذشتہ دور میں دی گئی جب وہ اپوزیشن میں تھے۔ان کہنا تھا کہ میری کمپنیوں نے 12.28 فیصد چینی برآمد کی اور یہ مارکیٹ کا 20 فیصد تک بنتا ہے جبکہ برآمدگی ’پہلے آئیں پہلے پائیں‘ کی بنیاد پر کی گئیں۔

مونس الہیٰ نے مقامی میڈیا پر اپنا موقف دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہیں تاہم انھوں نے یہ وضاحت بھی دی کہ ان کا رحیم یار خان ملز میں بلاواسطہ شیئرز ہیں لیکن ملز انتظامیہ سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔انکوائری کمیشن رپورٹ کے مطابق سبسڈی اور برآمدات کی اجازت حاصل کرنے والی دیگر شوگر ملز میں ہنزہ شوگر ملز، انڈس شوگر ملز، فاطمہ شوگر ملز، حسین شوگر ملز، شیخو شوگر ملز، نون شوگر ملز، جوہر آباد شوگر ملز اور ہدیٰ شوگر ملز شامل ہیں۔

انکوائری رپورٹ میں پنجاب حکومت سے متعلق بتایا گیا کہ صوبائی حکومت نے دباؤ میں آ کر شوگر ملز کو سبسڈی دی اور اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے برآمدات کی اجازت دی تاہم اس انکوائری میں یہ کہیں ذکر نہیں ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی حکومت نے کس کے دباؤ میں آ کر شوگر ملز کو سبسڈی اور برآمدات کی اجازت بھی دی۔رپورٹ کے مطابق ان شوگر ملز کو سبسڈی ایک ایسے وقت پر دی گئی جب مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔رپورٹ کے مطابق شوگر ملز نے باقاعدہ منصوبے کے تحت ملز بند کرنے کا اعلان کیا اور بعد میں سستے داموں گنا خریدا مگر زیادہ منافع کی دوڑ میں اس کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچایا جا سکا۔