ماحولیاتی آلودگی کا عالمی دن:ایشیاءکو خطرناک ترین خط قراردیدیا گیا

پاکستان میں تین کروڑ 85 لاکھ افراد غذائی کمی کا شکار ہیں‘امریکا میں 48 ارب ڈالرکی خوراک ضائع کردی جاتی ہے.اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام UNEP

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 5 جون 2020 14:50

ماحولیاتی آلودگی کا عالمی دن:ایشیاءکو خطرناک ترین خط قراردیدیا گیا
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔05 جون۔2020ء) پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ماحولیات کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، جس کا مقصد عوام میں ماحول کی بہتری اور آلودگی کے خاتمے سے متعلق شعور و آگاہی پیدا کرنا ہے 5 جون کو اقوام متحدہ کے زیراہتمام 1974 سے ہر سال یہ دن ماحولیاتی مسائل پر قابو پانے کے عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے.

(جاری ہے)

دنیا کے بیشتر ممالک میں ماحولیات کے عالمی دن کی مناسبت سے واک، ریلیاں، سیمینارز اور دیگر تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے‘ہمارے ملک میں ہر سطح پر منعقد کی جانے والی تمام اقسام کی تقریبات میں جس طرح خوراک کی بربادی ہو رہی ہے، اس کا مجموعی اثر ہمارے قدرتی وسائل پر بھی پڑ رہا ہے ماہرین کے مطابق پوری دنیا کو اس وقت ماحولیاتی آلودگی کا سامنا ہے اور اس میں روز بروز خطرناک حد تک ا ضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے لوگوں میں مہلک وبائی امراض پیدا ہو رہے ہیں.

عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے جائزوں کے مطابق پاکستان میں تین کروڑ 85 لاکھ افراد غذائی کمی کا شکار ہیں ‘ماہرین کے مطابق پوری دنیا کو اس وقت ماحولیاتی آلودگی کا سامنا ہے اور اس میں روز بروز خطرناک حد تک ا ضافہ ہوتا جا رہا ہے جس سے لوگوں میں مہلک وبائی امراض پیدا ہو رہے ہیں ‘خوراک کے وسیع پیمانے پر ضیاع کی وجہ سے ایک طرف دنیا بھر میں موجود قدرتی وسائل یعنی پانی، توانائی اور زمین پر سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں تو دوسری جانب محنت اور سرمائے کے ضیاع کے اور گرین ہاو¿س گیسوں کے غیر ضروری اخراج کے سبب گلوبل وارمنگ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے .

جس سے خوراک کی طلب پوری نہ ہونے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے بالخصوص غریب ممالک کے عوام کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ‘ایک اندازے کے مطابق ترقی یافتہ ممالک سے تعلق رکھنے والے عوام ہر سال تقریباً 22 کروڑ 20 لاکھ ٹن خوراک ضائع کر دیتے ہیں ‘دنیا بھر میں ملٹی نیشنل غذائی کمپنیاں اپنی تیار کردہ فالتو خوراک بڑی مقدار میں سمندر برد کر دیتی ہیں جسے استعمال میں لاکر دنیا میں خوراک کی کمی کو کافی حد تک پورا کیا جاسکتا ہے‘یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ایک طرف دنیا کے غریب اور پسماندہ ممالک میں رہائش پذیر افراد خوراک کی شدید قلت کا شکار ہیں تو دوسری جانب امریکا میں مجموعی خوراک کا 30 فیصد حصہ ضائع کر دیا جاتاہے جس کی قیمت کا اندازہ 48 ارب 30 کروڑ ڈالر لگایا گیا ہے.

اقوام متحدہ کے جائزوں کے مطابق متعدد ملکوں کے عوام اپنی آمدنی کا تین چوتھائی حصہ خوراک پر صرف کر دیتے ہیں ‘گزشتہ چند برسوں کے دوران ہم نے بنیادی غذائی اشیاءکے لئے عوام کو قطار لگاتے اور لڑتے جھگڑتے دیکھا جو ملک میں خوراک کی شدید کمی کی جانب اشارہ کرتا ہے ‘ آبی مخلوق کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی تعداد نے ماحولیاتی و فضائی آلودگی میں اضافہ کر دیا ہے جس سے جہاں فطرت کا حسن آلودہ ہورہا ہے وہیں بے شمار بیماریاں بھی جنم لے رہی ہیں ‘ماہرین ماحولیات نے بتایا کہ قدرتی جنگلات کا وسیع پیمانے پر صفایا، چاروں اطراف گاڑیوں کے دھوئیں، شور، جگہ جگہ گندگی اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں نے ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہے .

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام UNEP کی تازہ ترین رپورٹ میں زمین کے ماحول کو سبز مکانی گیسوں کے اثرات سے بچانے کے لئے جنگلات کی کٹائی کو روکنے، غیر محتاط طرز زراعت سے بچنے اور ماحول دوست طریقے اپنانے پر زور دیا گیا ہے . عالمی سطح پر ماحولیاتی آلودگی میں اضافے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے UNEP کی اس رپورٹ میں کئی شعبوں میں بہت اہم مشورے دیئے گئے ہیں ‘کرہ ارض کے حیاتیاتی نظاموں کا بہتر انتظام کئی ارب ٹن ایسی زہریلی گیسوں کے غیر نقصان دہ انداز میں زمین پر ہی دوبارہ جذب کئے جانے کا باعث بن سکتا ہے جو اب تک ماحول کے لئے تباہ کن ثابت ہو رہی ہیں .

عالمی ماحولیاتی پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر آخم شٹائنر کے مطابق کرہ ارض کو ماحولیاتی تباہی سے بچانے کے لئے فطرت کے وضع کردہ لاتعداد حیاتیاتی نظام، مستقبل میں 50 بلین ٹن کاربن گیسوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تاہم قدرتی ماحالیاتی نظام کے اس طویل سلسلے میں جملہ ماحول دوست امکانات کو استعمال میں لانے کے لئے خود زمین پر آباد انسانوں کو بھی اپنے اردگرد کی آب و ہوا کو صاف رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہو گی .

عالمی یوم ماحول کے موقع پر ماحولیاتی پروگرام کی اس رپورٹ سے چند روز قبل ہی عالمی بینک نے بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے موضوع پر اپنی ایک رپورٹ جاری کی تھی اس رپورٹ کی شریک مصنفہ ماریئن فے ماحولیاتی تباہی کے عمل میں مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کو حساس ترین علاقے قرار دیتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ مشرقی یورپی ملکوں پر ماحولیاتی تبدیلیوں اور زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کے اثرات انتہائی شدید ہیں اس وجہ سے اس خطے میں خشک سالی کے واقعات اور اچانک سیلاب کافی زیادہ دیکھنے میں آنے لگے ہیں آج کے مشرقی یورپ میں آب وہوا کی تبدیلی کا بہت قریبی تعلق ماضی میں کالعدم ریاست سوویت یونین کی طرف سے صنعتی اور زرعی شعبوں میں برتی جانے والی شدید غفلت سے بھی ہے .

دنیا کے دوسرے خطوں میں ماحولیاتی تبدیلیاں وہاں پر آج کی انسانی آبادی کی لاپرواہی کی بناءپر دیکھنے میں آرہی ہیں Marianne Fay کہتی ہیں کہ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ زمین کی فضا میں پہلے سے موجود کاربن ڈائی آکسائڈ کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیاں ہوتی رہیں گی، چاہے ہم آج ہی سے کاربن گیسوں کا فضا میں اخراج روک بھی دیں . بین الاقوامی سطح پر فضا میں گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج اور عالمی ماحول میں ابتری کے مجموعی عمل کے موضوع پر اقوام متحدہ کی ایک عالمی کانفرنس اسی سال دسمبر میں ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ہوگی جس میں ایک نئے عالمی معاہدے کو حتمی شکل دینے کی کوشش کی جائے گی .