ای سی سی اجلاس، احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت 3.725ملین درخواست گزاروں کو نقد امداد کی فراہمی کیلئے 29.72ارب رروپے کی منظوری

آر ایل این جی شعبہ میں سرکلر ڈیبٹ سے بچنے کیلئے حکومتی سطح پر پالیسی فیصلہ سازی کیلئے معاملے پر مزید غور کرنے کا فیصلہ 6کمیٹی کا ایگریٹک اور فاطمہ فرٹیلائزر نامی دو بند پلانٹس کو دوبارہ کھولنے اور جولائی تا دسمبر 756 ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے گیس فراہم کرنے کا فیصلہ کے الیکٹرک لمیٹڈ میں سہ ماہی بنیادوں پر ایڈجسٹمنٹ کے معاملے پر 6مارچ2020 کے اجلاس کے فیصلے پر عملدر آمد کرایا جائیگا

جمعہ 3 جولائی 2020 21:03

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 03 جولائی2020ء) کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی(ای سی سی) نے احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت 3.725ملین درخواست گزاروں کو صوبائی ، علاقائی و ضلعی کوٹہ کے برعکس فی کس 12ہزار روپے نقد امداد کی فراہمی کے لئے 29.72ارب رروپے کی منظوری دیدی ہے ۔ای سی سی کا اجلاس مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی زیرصدارت جمعہ کو منعقد ہوا ۔

اجلاس میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مالی سال 2020-21 کے لئے مختص 200ارب روپے کے بجٹ سے 29.72ارب روپے خرچ کرنے کی اجازت دی گئی ہے جس کے تحت ان ہدایات کے ساتھ ساتھ 3.72ملین درخواست گزاروں کو نقد امدادی رقم فراہم کی جائے گی کہ 2020-21کے دوران ریگولر آپریشنز کے لئے کسی قسم کی اضافی رقم کی ضرورت ہو تو وہ بھی فراہم کی جائے گی ۔

(جاری ہے)

یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب غربت کے خاتمے اور سماجی تحفظ ڈویژن نے ای سی سی کو بتایا ہے کہ 3.151 ملین افراد جنہوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے معاونت کے لئے درخواستیں دی تھیں وہ طے شدہ معیار کے مطابق پورا اترتے ہیں ، تاہم انہیں صوبائی یا ضلعی کوٹہ کی بنیاد پر مالی مدد فراہم نہیں کی جاسکتی ۔

ای سی سی کو بتایا کہ پنجاب حکومت پہلے ہی 7لاکھ درخواست گزاروں کو مالی مدد فراہم کرنے پر اتفاق کرچکی ہے ۔اجلاس کے دوران ای سی سی نے آر ایل این جی کی سیل پرائس کے حوالے سے پالیسی گائیڈ لائنز کے لئے تجاویز بھی لیں ۔ای سی سی کو بتایا گیا کہ آر ایل این جی کی نوعیت اور مقامی سطح پر تیار ہونیوالی گیس کی قیمت کے پیش نظر گھریلو صارفین کو آر ایل این جی کی فروخت کے نتیجے میں جولائی2018 تا اپریل2020ء کے درمیان 77.84ارب روپے کا خسارہ ہوا ہے ۔

ای سی سی کو مزید بتایا گیا کہ یہ خسارہ اس وقت ہوا جب آر ایل این جی کی ایڈجسٹمنٹ کا اثر غیر جانبدارانہ بنیادوں پر قیمت پر پڑا جہاں سوئی نادرن گیس پرائیویٹ لمیٹڈ نے ملک کی سطح پر پیدا ہونیوالی گیس کو اپنے صارفین کو آر ایم ایل این جی کے نام پر فروخت کیا اور جب بھی سرپلس سسٹم گیس دستیاب ہوا کچھ آمدن میں خسارے کو ریکور کیا ۔ای سی سی کو یہ بھی بتایا گیا کہ آر ایل این جی ریونیو خسارے کی بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ اس کی قیمت میں ڈومیسٹک گیس کے مقابلے میں فرق ہے ۔

91فیصد ڈومیسٹک گیس صارفین ماہانہ اوسطاً121روپے بل ادا کرتے رہے ہیں جو کہ موسم سرما کے دوران ڈومیسٹک صارفین کو درآمد شدہ آر ایل این جی کی فراہمی کی قیمت سے کئی گنا کم ہے ۔ای سی سی نے تجاویز کا جائزہ لیا اور اوگرا سے کہا کہ اس پر نظرثانی کی جائے ، خاص طورپر آر ایل این جی ریونیو خسارے پر اور پھر ای سی سی کو رپورٹ دی جائے ۔ای سی سی نے آر ایل این جی شعبہ میں سرکلر ڈیبٹ کی صورتحال پیدا ہونے سے بچنے کے لئے حکومتی سطح پر پالیسی فیصلہ کے لئے معاملے کو مشاورت کی بنیاد پر حل کرنے کی غرض سے اس پر مزید ایک چھوٹے گروپ کی سطح پر بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

ای سی سی نے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی و مواصلات کی جانب سے مالی سال 2020-21کے لئے این ٹی سی کے لئے 4.59 ارب روپے کے بجٹ کی بھی تجویز کی بھی منظوری دی ہے ۔ای سی سی نے وزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے دی گئی تجویز پر بھی غور کیا جس میں کہا گیا تھا کہ قومی فرٹیلائزر ڈویلپمنٹ سنٹر کی جانب سے دیئے گئے اعداد وشمار کے مطابق یوریا کھاد کاذخیرہ دسمبر2020 تا فروری2021ء کے عرصے میں دو لاکھ میٹرک ٹن کی سطح سے نیچے رہے گا ۔

ای سی سی نے فیصلہ کیا کہ اس خسارے کو پورا کرنے اور دستیاب سطح تک ذخیرہ کو یقینی برقرار رکھنے کے لئے ایس این جی پی ایل نیٹ ورکس میں ایگریٹک اور فاطمہ فرٹیلائزر نامی دو بند پلانٹس کو جولائی تا دسمبر تین ماہ کے عرصے کے لئے 756 ایم ایم بی ٹی یو کے ریٹس کے حساب سے گیس فراہم کی جائے گی ، اس میں حکومت پاکستان کا 959ملین روپے کا شیئر بھی شامل ہو گا ۔

ای سی سی میں کے الیکٹرک لمیٹڈ کے جولائی 2016 تا مارچ2019 کے عرصے کے لئے سہ ماہی بنیادوں پر ایڈجسٹمنٹ کے معاملے پر بھی غور کیا گیا اور 26مارچ2020 کے گزشتہ فیصلے کا اعادہ کیا گیا جب ای سی سی کی جانب سے قائم کردہ کمیٹی نے چار مارچ2020ء کو اس کے اجلاس میں کے الیکٹرک لمیٹڈ کی جولائی2016 تا مارچ2019کے عرصے کے لئے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے معاملے کو حل کرنے کے لئے سفارشات پیش کی تھیں جنہیں ان ہدایات کیساتھ منظور کیا گیا تھا کہ تین ماہ کے عرصے بعد یہی سفارشات لاگو رہیں گی