جامعة الازہر کے عالم نے اماراتی عوام کے خلاف فتوے پر شدید تنقید

فلسطینی مفتی نے فتویٰ دیا تھا کہ اسرائیل امارات سمجھوتے کے بعد مسجد اقصیٰ میں اماراتی عوام کو عبادت کی اجازت نہیں دی جائے گی

Muhammad Irfan محمد عرفان بدھ 19 اگست 2020 13:09

جامعة الازہر کے عالم نے اماراتی عوام کے خلاف فتوے پر شدید تنقید
دُبئی(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 19اگست 2020ء) گزشتہ دنوں متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان امن سمجھوتہ طے پایا ہے جس کے بعد تجارتی اور تحقیقی میدانوں میں بھی دونوں ممالک کے درمیان نئے معاہدے کیے جا رہے ہیں۔ اس بین الاقوامی سمجھوتے پر فلسطینی قیادت کی جانب سے بھی سخت رد عمل دیا گیا ہے، یہاں تک فلسطینی القدس کے ایک مفتی کی جانب سے یہ فتویٰ جاری کیا گیا ہے کہ اس سمجھوتے کے بعد اب اماراتی عوام کو مسجد اقصیٰ میں داخلے اور عبادت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

اس فتوے پر مصر کے مشہور اسلامی تدریسی ادارے جامعة الازہر کے ایک مشہور عالم ڈاکٹر عباس شُمان نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ فلسطینی مفتی کی جانب سے اماراتی عوام کے خلاف دیئے گئے فتوے کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔

(جاری ہے)

اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی بھی مسلمان کو دُنیا بھر میں واقع کسی مسجد میں عبادت سے نہیں روکا جا سکتا۔

ڈاکٹر عباس نے مزید کہا کہ وہ اسلامی فقہ کے ماہر ہیں، اسلام کی فقہی تاریخ سے واقف ہونے کے باعث وہ یہ بات واضح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ آج تک اسلامی فقہ کی تاریخ میں کسی بھی خطے کے مسلمانوں کو کسی ایک مسجد یا مساجد میں نماز پڑھنے سے روکنے کا فتویٰ جاری نہیں ہوا۔شرعی اصولوں کے مطابق فلسطینی مفتی کا شریعت کے مطابق نہیں ہے۔ کسی ملک کی لیڈر شپ کے سیاسی فیصلوں کی بناء پر اس ملک کے عوام کو کسی مسجد میں نماز پڑھنے سے روکنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ اماراتی حکومت کے سمجھوتے کا دفاع نہیں کر رہے، یہ ان کا سیاسی فیصلہ ہے۔ انہیں تو صرف اس فتوے پر اعتراض ہے جو شرعی اصولوں کے مطابق جاری نہیں ہوا۔ ڈاکٹر شُمان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے قیام کے بعد اسے اسلامی ممالک میں سب سے پہلے تُرکی نے تسلیم کیا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور دفاعی شعبوں میں بھی تعلقات قائم ہیں۔ قطر کے بھی اسرائیل سے تجارتی تعلقات ہیں، کیا کسی فلسطینی مفتی نے ان دونوں ممالک کے خلاف فتویٰ جاری کیا ہے، تو پھر اماراتی عوام کے خلاف بھی فتوے کا کوئی جواز نہیں ہے۔