موٹر وے زیادتی کیس کی مزید تفصیلات منظرعام پر آگئیں

پولیس کا خیال ہے دونوں ملزمان پروفیشنل ڈاکو نہیں تھے ، اگر یہ پروفیشنل ہوتے تو ان کا طریقہ واردات مختلف ہوتا ، جاوید چوہدری کا کالم

Sajid Ali ساجد علی اتوار 13 ستمبر 2020 13:45

موٹر وے زیادتی کیس کی مزید  تفصیلات منظرعام پر  آگئیں
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 13 ستمبر2020ء) موٹر وے زیادتی کیس کے بارے میں مزید حقائق منطرعام پر آگئے ۔ معروف تجزیہ کار جاوید چوہدری نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ خاتون اکثر لاہور سے گوجرانوالہ آتی جاتی رہتی تھی ، یہ رات ساڑھے بارہ بجے لاہور سے نکلی ، محمود بوٹی سے موٹر وے پر آئی اور گوجرانوالہ کی طرف ڈرائیو کرنے لگی ، رات ایک بج کر پانچ منٹ پر ایسٹرن بائی پاس سے لاہور سیالکوٹ موٹروے پر آئی ، تاہم جوں ہی لنک روڈ پر پہنچی تو اس کی گاڑی کا پٹرول ختم ہو گیا ، سڑک پر اندھیرا تھا جس کی وجہ سے یہ خوف زدہ ہو گئی ، بچے پچھلی سیٹوں پر سوئے ہوئے تھے ، اس نے فوراً اپنے خالہ زاد بھائی سردار شہزاد کو فون کیا ، اس نے اسے مشورہ دیا کہ 130 ڈائل کر کے موٹروے پولیس کو اطلاع دے دو میں بھی آ رہا ہوں ، اس نے اپنے دوست جنید کو ساتھ لیا اور یہ گوجرانوالہ سے روانہ ہو گیا ۔

(جاری ہے)

جاوید چوہدری نے لکھا ہے کہ خاتون نے ہیلپ لائین پر موٹروے پولیس کوفون کر دیا اسے بتایا گیا آپ ایم الیون کی لنک روڈ پر ہیں اور یہ موٹروے پولیس کی حد میں نہیں آتی تاہم موٹروے پولیس نے خاتون کو ایک مقامی نمبر دے دیا ، خاتون نے اس نمبر پر رابطہ کیا اور بتایا میں اکیلی ہوں میرے ساتھ بچے ہیں اور میں اس وقت لنک روڈ پر پھنس گئی ہوں۔ اسے بتایا گیا ’آپ فکر نہ کریں‘ ہم کچھ کرتے ہیں‘ خاتون نے گاڑی اندر سے لاک کی اور سردار شہزاد اور پولیس کا انتظار کرنے لگی۔

تجزیہ کار کے مطابق 2 گھنٹے گزر گئے مگر پولیس آئی اور نہ سردار شہزاد پہنچا لیکن اس دوران 2 ڈاکو وہاں آ گئے، پولیس کا خیال ہے یہ دونوں پروفیشنل ڈاکو نہیں تھے کیوں کہ اگر یہ پروفیشنل ہوتے تو ان کا طریقہ واردات مختلف ہوتا ، یہ قریبی دیہات کے معمولی وارداتیے ہیں ، یہ تھوڑی دیر گاڑی کو دیکھتے کرتے رہے جب دو گھنٹے تک کوئی شخص گاڑی کے قریب نہیں آیا تو پھر انھوں نے اسے لوٹنے کا فیصلہ کر لیا ، یہ گاڑی کے قریب پہنچے اور پستول دکھا کر خاتون کو دروازہ کھولنے کا اشارہ کیا ، خاتون نے انکار کر دیا تو یہ دھمکیاں دینے لگے لیکن خاتون نے دروازہ نہ کھولا جس پر یہ مشتعل ہو گئے اور ڈنڈا مار کر شیشہ توڑ دیا ۔

جاوید چوہدری کے مطابق بچوں نے رونا شروع کر دیا تو خاتون ڈر کر سڑک کی طرف دوڑ پڑی ، ایک ڈاکو اس کے پیچھے دوڑا تو اس دوران وہاں سے ایک گاڑی گزری ، گاڑی کے ڈرائیور نے خاتون کو دیکھ لیا مگر اس کی اسپیڈ زیادہ تھی تاہم گاڑی میں سوار خالد مسعودکے ذہن میں کھٹکا آیا اور اس نے 15 پر پولیس کو اطلاع دے دی ، اس دوران دوسرے ڈاکو نے خاتون کا دو سال کا بچہ اٹھایا اور اسے لے کر جنگل کی طرف دوڑ پڑا ، خاتون بچے کو بچانے کے لیے گاڑی کی طرف واپس آ گئی ، دوسرے ڈاکو نے اس کے دوسرے بچے بھی گاڑی سے کھینچ کر باہر نکال لیے ۔

تجزیہ کار نے مزید لکھا ہے کہ ماں بچوں کو بچانے کے لیے ان کے ساتھ الجھ پڑی ، وہ چاروں کو دھکیل کر سڑک سے نیچے کھائی میں لے گئے ، آگے جنگل تھا ، ایک ڈاکو نے تینوں بچوں کو سائیڈ پر پھینکا اور ان کے سر پر پستول رکھ دیا ، بچے سسک رہے تھے جب کہ دوسرے ڈاکو نے خاتون کو بے بس کرنا شروع کر دیا وہ اس سے لڑتی رہی ، اس دوران پہلے ڈاکو نے بچوں کو مارنا شروع کر دیا ، وہ ماں تھی چناں چہ وہ بچوں کی سلامتی کے لیے ڈھیلی پڑ گئی ، دوسرا ڈاکو آگے بڑھا اور پہلا بچوں کے سر پر کھڑا ہو گیا ، دونوں ڈاکوئوں کو کوئی جلدی‘ کوئی پریشانی نہیں تھی ۔

دونوں نے اس کے بعد گاڑی سے خاتون کے زیور ، نقدی اور اے ٹی ایم کارڈ لیے اور اس سے کہا خاموش ہو کر یہاں بیٹھی رہو اگر تم سڑک پر گئی تو تم چاروں کو گولی مار دیں گے ۔اس دوران دور سے موٹر سائیکل کی آواز آئی جس پر وہ دونوں اٹھے اور اندھیرے میں گم ہو گئے ۔