اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اکتوبر 2025ء) پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ نئی دہلی حکومت افغان طالبان کو 'اکسا‘ رہی ہے جب کہ ان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کابل کو 'بھارت کی پراکسی‘ سے تعبیر کیا۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین اس طرح کی بیان بازی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
دونوں ممالک کئی بار ایک دوسرے پر خطے میں عدم استحکام پھیلانے کا الزام عائد کرتے آئے ہیں۔ لیکن حال ہی میں افغان طالبان کی نئی دہلی حکومت کے ساتھ بڑھتی قربتیں مبینہ طور پر پاکستان کے لیے تشویش کا سبب بنی ہیں۔افغانستان
کے وزیر خارجہ نے 9 اکتوبر کو نئی دہلی کا دورہ کیا، جو 2021ء میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد کسی اعلیٰ رہنما کا پہلا دورہ ہے۔(جاری ہے)
افغان طالبان نے اسلام آباد پر دراندازی کا الزام لگایا۔ جب کہ پاکستان کا الزام ہے کہ کابل انتظامیہ پاکستانی طالبان سمیت ایسے گروپوں کی پشت پناہی کر رہی ہے، جو سرحد پر حملے کرتے ہیں۔ گزشتہ قریب ایک ہفتے سے دونوں ممالک کے درمیان کئی برسوں میں ہونے والی شدید ترین جھڑپیں جاری رہیں۔ تاہم قطری دارالحکومت دوحہ میں گزشتہ روز ہونے والے مذاکرات کے بعد 19 اکتوبر کو دونوں ممالک کے مابین جنگ بندی معاہدے پر اتفاق ہو گیا ہے۔
سن 2021ء میں امریکہ کے افغانستان سے انخلا اور طالبان کی واپسی کے بعد سے کسی زمانے میں قریبی اتحادی افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ امریکی انخلاء کے بعد اس وقت کے پاکستانی انٹیلیجنس چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے ابتداء میں مثبت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن اس کے بعد پاکستان میں عسکریت پسند گروہوں کے حملوں میں اضافہ ہوتا رہا اور اسلام آباد مسلسل طالبان حکام پر عسکریت پسند گروپوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام لگاتا رہا۔
پاکستانی حکام کا الزام ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اس سے وابستہ تنظیمیں ان حملوں کی ذمہ دار ہیں اور ان کا ہدف عموماً پاکستان کے عسکری ادارے ہوتے ہیں۔ انہی اداروں کے لیے کام کرنے والے ایک ذریعے نے اے ایف پی کو بتایا کہ صرف اکتوبر میں افغانستان سے وابستہ حملہ آوروں کے حملوں میں 100 سے زائد سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے۔
اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستان میں کئی مہینوں سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ تشدد کے بڑھتے واقعات بھی اسی کی وجہ سے ہیں۔دوسری جانب سابق پاکستانی سفارت کار ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ طالبان کے وزیر خارجہ کا نئی دہلی کا دورہ ناراضگی کی ایک وجہ ہو سکتا ہے تاہم یہ 'پاکستانی انتقامی کارروائیوں‘ کا محرک نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، ''پاکستان کے غصے اور مایوسی کا اصل محرک طالبان حکام کا ٹی ٹی پی کو کنٹرول کرنے سے انکار ہے۔‘‘بھارت
نے تاہم پاکستان کے حوالے سے کہا ہے کہ اسلام آباد کو اپنے ملک کے اندرونی معاملات بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور پڑوسیوں پر الزام لگانے کی عادت کو ترک کرنا چاہیے۔ادارت، عاصم سلیم