انسداد دہشتگردی عدالت نے 8 سال بعد سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ سنا دیا

رحمان بھولا اور زبیر چریا کو سزائے موت،ایم کیو ایم کے رہنما رؤف صدیقی اور دیگر 3 افراد کو عدم شواہد کی بنیاد پر بری کردیا گیا

Sajid Ali ساجد علی منگل 22 ستمبر 2020 14:39

انسداد دہشتگردی عدالت نے 8 سال بعد سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ سنا ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 ستمبر2020ء) سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں ملزم رحمان بھولا اور ملزم زبیر چریا کو سزائے موت سنادی گئی ، حماد صدیقی کو اشتہاری قرار دے دیا گیا ، رؤف صدیقی بری ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سانحہ بلدیہ کیس کا 8 سال بعد فیصلہ سنادیا ، عدالت کی طرف سے جرم ثابت ہونے پر رحمان بھولا اور زبیر چریا کو سزائے موت سنادی گئی ، ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے حماد صدیقی کو مقدمے میں اشتہار قرار دے دیا گیا ، جبکہ دیگر 4 ملزمان کو سہولت کاری پرعمر قید کی سزاسنائی گئی، جن میں علی محمد،ارشد محمود،فیکٹری مینیجر شاہ رخ اور فضل احمد شامل ہیں ۔

بتایا گیا ہے کہا انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس مقدمے میں ایم کیو ایم کے رہنما رؤف صدیقی کو عدم شواہد کی بنیاد پر بری کردیا ، ان کے ساتھ عبدالستار، ادیب خانم اور علی حسن قادری کو بھی فیصلے میں بری قرار دیا گیا۔

(جاری ہے)

 واضح رہے کہ 11 ستمبر 2012 کو کراچی کی بلدیہ فیکٹری کو کیمیکل ڈال کر آگ لگا دی گئی ، جس میں ڈھائی سو زائد مزدور زندہ جل گئے، 50 سے زائد افراد جھلسنے سے زخمی ہوئے۔

سائٹ پولیس نے 24 گھنٹے بعد مقدمہ درج کیا ، فیکٹری مالکان شاہد بھائلہ اور ارشد بھائلہ نے سندھ ہائیکورٹ لاڑکانہ سے حفاظتی ضمانت حاصل کرلی ، بعد ازاں ایڈیشنل ڈسرکٹ اینڈ سیشن جج ویسٹ عبداللہ چنہ نے فیکٹری مالکان کی ضمانت مسترد کر دی ، پولیس نے مقدمے کا چالان پیش کیا تو گواہوں کی تعداد 15 سو تھی، لگتا تھا کہ پولیس مقدمہ کا فیصلہ نہیں چاہتی۔

2013 میں سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج زاہد قربان علوی کی سربراہی میں بننے والے جوڈیشنل کمیشن نے آگ کی وجہ شارٹ سرکٹ اور متعلقہ اداروں کی غفلت کو قرا دیا۔ کمیشن کی رپورٹ کے بعد حکومتی سطح پر ہلچل ہوئی اور مقدمے میں تبدیلیاں آنی شروع ہوگئیں ۔ پولیس نے دوسرا چالان پیش کیا تو مقدمے میں قتل کی دفعہ 302 خارج کرنے کے ساتھ مقدمے کے گواہوں کی تعداد آدھی کر دی گئی ۔

2014 میں مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نوشابہ قاضی کی عدالت میں منتقل کر دیا گیا۔ فیکٹری مالکان ضمانت کے بعد عدالتی اجازت سے بیرون ملک چلے گئے ، سال 2015 شروع ہوا تو صوبائی حکومت نے ڈی آئی جی سلطان خواجہ کی سربراہی میں نو رکنی جے آئی ٹی بنا دی، اسی دوران سندھ رینجرز کی ایک رپورٹ نے مقدمہ میں طوفان برپا کر دیا ۔ 6 فروری 2015 کو رینجرز رپورٹ میں بتایا گیا کہ ناجائز اسلحہ کیس کے ملزم رضوان قریشی نے انکشاف کیا کہ بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی، آگ لگانے والا کوئی اور نہیں بلکہ ایم کیوایم تھی ، مقدمے کے ایک اور چالان میں ملزمان حماد صدیقی، رحمان بھولا، زبیر عرف چریا کا اضافہ کر دیا گیا۔

2016 میں دہشت گردی کی دفعات کے ساتھ مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت منتقل کر دیا گیا ۔ حماد صدیقی، رحمان بھولا کے ریڈ وارنٹ جاری ہوئے، ملزم زبیر چریا سعودیہ، رحمن بھولا تھائی لینڈ میں انٹر پول کی مدد سے گرفتار ہوئے، دسمبر 2016 میں پاکستان لایا گیا۔