ایف بی آر میں ریفارمز ونگ قائم کر دیا گیا ہے، جاوید غنی

منگل 13 اکتوبر 2020 14:28

ایف بی آر میں ریفارمز ونگ قائم کر دیا گیا ہے، جاوید غنی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 اکتوبر2020ء) : چیئرمین ایف بی آر جاوید غنی نے کہا ہے کہ ایف بی آر میں ریفارمز ونگ قائم کر دیا گیا ہے، ڈیجٹلائزیشن اور آٹومیشن کے ذریعے ایسا نظام لایا جا رہا ہے جس کے ذریعے کوئی بھی اپنی دولت چھپا نہیں سکے گا، ٹیکسیشن کے نظام میں انسانی عمل دخل ختم ہونے سے کرپشن کے خاتمے سمیت ٹیکس وصولیوں کے اہداف یقینی بنائے جا سکیں گے جبکہ پی اے سی نے کہا ہے کہ ٹیکسوں کے 1856ارب روپے کے عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات نمٹانے کے لئے پی اے سی ایف بی آر کی ہر ممکن مدد کرے گی۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی( پی اے سی ) کااجلاس منگل کو چیئرمین پی اے سی رانا تنویر حسین کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں کمیٹی کے ارکان سید نوید قمر،حنا ربانی کھر،سید حسین طارق،ریاض فتیانہ،نور عالم خان ،شیخ روحیل اصغر، سینیٹر مشاہد حسین سید، ثنائ اللہ مستی خیل،اقبال محمد علی خان ،آغا حسن بلوچ، ابراہیم خان، ملک عامر ڈوگر، خواجہ شیراز محمود، سردار ایاز صادق، خواجہ محمد آصف سمیت متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں ایف بی آر کے آڈٹ اعتراضات سمیت دیگر امور کا جائزہ لیا گیا۔ چیئر مین پی اے سی نے ارکان کو بتایا کہ چیئرمین نیب کچھ علیل ہیں ان کے صحتیاب ہونے پران کو اجلاس میں مدعو کرکے تمام زیر تفتیش کیسز کے حوالے سے بات کریں گے۔ سردار ایاز صادق اور نور عالم خان نے کہا کہ گذشتہ اجلاس میں ان کی طرف سے اٹھائے گئے نکات منٹس میں شامل نہیں ہیں اس بنا پر کمیٹی نے دوبارہ منٹس بنانے کی ہدایت کی۔

ریفنڈز کے حوالے سے ایف بی آر کی جانب سے بریفننگ میں بتایا گیا کہ سیلز ٹیکس کی مد میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران 118 ارب کے ریفنڈز ادا کردیئیگئے ہیں۔ انکم ٹیکس کی مد میں 56 ارب 60 کروڑ کے ریفنڈز کی ادائیگی کی ہے۔ سسٹم کو سادہ، آسان اور بہتر بنا دیا گیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ انسانی عمل دخل ختم کر دیا گیا ہے ہم اس سلسلے میں مکمل انسانی عمل دخل ختم کر دیں گے۔

نان فاسٹر ریفنڈز کے تحت بھی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کورونا کی صورتحال کے با وجود رواں سال بھی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنکوں ، ڈسکوز ، موٹر رجسٹریشن اتھارٹیز سمیت بہت سے اداروں کے سسٹم اپڈیٹڈ نہ ہونے کی بنا پر ریفنڈز کی ادائیگیوں میں تاخیر ہوتی ہے ۔ جن ریفنڈز درخواستوں کی تصدیق ہو جائے وہ ہم ادا کر دیتے ہیں۔

واجب الادا ریفنڈز کا کلیم 345 ارب ہے ۔ خواجہ آصف نے کہا کہ سپریم کورٹ سمیت ملک بھر کی ماتحت عدالتوں میں 1856 ارب روپئے کے ٹیکس کیسز زیر سماعت ہیں اور عدالتی چارہ جوئی کے لئے ایف بی آر کو سالانہ 6 کروڑ روپے ملتے ہیں جو بہت کم ہیں اچھا وکیل کروڑوں میں فیس لیتا ہے ہمیں سپریم کورٹ سے بھی درخواست کرنے کے ساتھ ساتھ اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں لے کر جانا چاہیے۔

صرف 6 کروڑ سے 1856 ارب کی رقم ریکور نہیں ہوگی۔ رانا تنویر حسین نے کہا کہ ایف بی آر کی پی اے سی پوری مدد کرے گی ہم سپریم کورٹ سے بھی درخواست کریں گے۔ ایف بی آر میل ملاپ کا طریقہ کار ختم کرے اور اپنے ٹربیونلز کو بھی فعال کرے۔ ایف بی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ ہمارا رواں سال ہدف 4300 ارب کا ہے۔ کورونا کی صورتحال اور معیشت کی بدحالی کی وجہ سے ہم دبائو کا شکار ہیں۔

پی اے سی نے کہا کہ جس کے کم ریفنڈز ہیں اس کو رقم فوری ادا کرنے کی پالیسی کی بجائیتمام لوگوں کو منصفانہ ادائیگی کے لئیتناسب کے لحاظ سے طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ ایف بی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ کہ ایف بی آر اپنے اخراجات کے لئے فنڈز وزارت خزانہ سے لیتا ہے۔ پی اے سی نے ہدایت کی کہ انکم ٹیکس کے 45 ارب کے تیار ریفنڈز جلد از جلد ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔

سردار ایاز صادق نے کہا کہ تمام انکم ٹیکس کمشنرز کو یہ ہدایت جانی چاہیے کہ ریکوریوں کیلئے فعال کردار ادا کریں۔ پی اے سی اٹارنی جنرل سے درخواست کرے کہ عدالتوں میں زیر سماعت کیسز کی جلد سماعت اور فیصلوں کے حوالے سے ایف بی آر کی معاونت کرے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ بڑیٹیکس ڈیفالٹرز کے نام منظر عام پر لائے جائیں۔ ایف بی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ عدالتوں سے رجوع کیا جارہا ہے۔

ٹریبیونلز بھی متحرک ہو رہے ہیں ایسا نظام لا رہے ہیں جس کے تحت کسی کے لئے بھی اپنی دولت چھپانا ممکن نہیں ہوگا۔ آٹو میشن کے ذریعے شناختی کارڈ اور بینکوں کے ڈیٹا سے رجسٹرڈ اور نان رجسٹرڈ ٹیکس گزاروں پر ہاتھ ڈالا جا سکے گا۔حنا ربانی کھر نے کہا کہ لوگوں کا ڈیٹا غیر محفوظ ہاتھوں میں بھی جا سکتا ہے۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ ایف بی آر کے حوالے سے اب تک تجربات کئے جارہے ہیں سنجیدہ اقدامات کا فقدان ہیں۔

چیرمین ایف بی آر نے کہا کہ میرا تعلق کسٹم سے ہے اب یہ ذمہ داری مجھے ملی ہے۔ ہم تیز رفتاری سے کام کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے شبر زیدی کے صحت کے مسائل پیدا ہوئے۔ آٹومیشن پر کافی حد تک کام ہو چکا ہے۔ حکومت بھی انتہائی تیز رفتاری سے کام کرنے کی خواہاں ہے۔ ٹیکس وصولیوں کے نظام میں انسانی عمل دخل ختم کیا جا رہا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک نظام کو بہتر بنانا چاہتا ہے۔

انسانی وسائل کو بہتر بنانے سمیت آپریشن ، قانونی چارہ جوئی کے شعبوں پر توجہ دی جارہی ہے۔ ریفارمز کے لئے الگ ونگ قائم کیا ہے۔ درآمدات کم ہونے کی وجہ سے ٹیکس کم وصول ہوئے ہیں ،مقامی ٹیکسوں بالخصوص سیلز ٹیکس میں گروتھ بہتر ہوئی ہے۔ نور عالم خان نے کہا کہ سکول یونیفارمز اور کتابوں پر ٹیکس نہیں ہونا چاہیئے۔ ایف بی آر نے بتایا کہ ہمارے پاس ٹیکس ریکوری کے لئے ملک میں صرف 7 ہزار ملازمین ہیں ہمیں اس شعبہ میں بھی سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔