حضورنبی پاکﷺکے خاکوں کے پوسٹرز کیوں آویزاں کیے؟ الٹا پولیس نے معافی مانگ لی

اگر میں بدھا،کارل مارکس یا حضرت عیسیٰ کے پوسٹرز آویزاں کروں تو کیا پھر بھی مجھے پولیس دھمکانے گھر آئے گی؟

Sajjad Qadir سجاد قادر منگل 27 اکتوبر 2020 03:29

حضورنبی پاکﷺکے خاکوں کے پوسٹرز کیوں آویزاں کیے؟ الٹا پولیس نے معافی ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 27 اکتوبر2020ء) اس وقت دنیا بھر کے مسلمانوں میں کافی حد تک بے چینی پائی جا رہی ہے۔جس طرح نبی آخر الزماں کی شان میں گستاخی کے واقعات تواتر سے پیش آ رہے ہیں یہ کسی بڑے حادثے پر منتج ضرور ہوں گے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ جب غیر مسلم کے انفرادی رویے مسلم ممالک ہوتے ہیں تو ان کی حکومتیں بھی ان کی پشت پناہی کرنا شروع کر دیتی ہیں جس کے نتیجے میں ایسے واقعات کی وقعت میں تیزی آتی ہے۔

گزشتہ دنوں فرانس میں ایک اسکول ٹیچر نے اپنے طالبعلموں کو حضور نبی پاکﷺ کے خاکے دکھائے اورنتیجے میں اسے ایک عاشق رسول ﷺ نے ہلاک کر دیا ۔اس کے ردعمل میں ایک شخص نے سنیما اور دیگر پبلک پلیسز پر نعوذباللہ حضور نبی پاکﷺ کے خاکے پوسٹرز کی صورت میں آویزاں کردیے۔

(جاری ہے)

اس شخص کی اس حرکت پر جہاں دنیا بھر کے مسلمانوں نے غم و غصے کا اظہار کیا وہاں لوکل پولیس بھی اس شخص کے گھر گئی اور اسے بغیر اجازت اس قسم کے پوسٹرز آویزاں کرنے پر منع کیااور پوسٹرز اتارنے کی تلقین کی۔

تاہم کچھ ہی دیر بعد پولیس نے اعتراف کر لیا کہ اس طرح اس شخص کے گھر جانااور اسے اس ایکٹ سے منع کرنا قانوناً درست نہیں تھا۔پولیس کا کہنا تھا کہ فرانس کے اسکول ٹیچر کے قتل کے ردعمل میں نعوذ باللہ حضرت محمد ﷺ کے کارٹون بنا کر آویزاں کرنا اس کا ذاتی عمل تھا۔اسے پولیس کی طرف سے منع کرنا قانونی لحاظ سے بالکل غلط تھا۔چالیس سالہ شخص نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے حضرت محمد ﷺ کے خاکے بنا کر کانسبرگ ٹاﺅن میں چسپاں کر دیے تھے۔

اس نے یہ خاکے سنیما ہال،بس اسٹاپ اور چوکوں پر استادہ بڑی بلڈنگز کے سامنے چسپاں کیے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی نظر پڑ سکے۔تاہم اس شخص کا بعد میں لوکل میڈیا سے کہنا تھا کہ ایسا کرنے کا میرا مقصد آزادی اظہار کو نمایاں کرنا تھا۔”اسلام کو ایک آزاد معاشرے میں کوئی اسپیشل تحفظ حاصل نہیں ہے“۔اس نے بات کرتے ہوئے کہا ”کہ کسی پر انتہا پسند اور فسطائی کے لیبل لگائے بغیر اسلام سے متعلق ایماندارانہ گفتگو ہونی چاہیے“۔

اس شخص نے مزید یہ بھی کہا کہ اسے اس قسم کی امید نہیں تھی کہ اگر میں بدھا،کارل مارکس یا حضرت عیسیٰ کے پوسٹرز آویزاں کروں تو کیا پھر بھی مجھے پولیس دھمکانے گھر آئے گی؟پوسٹرز لگانے پر پولیس اس کے گھر آن پہنچے گی اور اسے دھمکائے گی ایک آزاد خیال معاشرے میں ایسا ہر گز نہیں ہوتا۔تاہم اس پر پولیس ہائی آفیشلز کا بھی کہنا تھا کہ چار پولیس اہلکاروں کا اس گستاخ کے گھر جانااور اسے پوسٹرز آویزاں کرنے سے منع کرنا ان کی غلطی تھی کیونکہ آزاد معاشرے کے قانون کے مطابق اس نے کوئی غلط حرکت نہیں کی تھی۔