یمن میں سعودی قیادت والے اتحاد کی طرف سے جنگی جرائم کا ارتکاب

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 29 اکتوبر 2020 21:00

یمن میں سعودی قیادت والے اتحاد کی طرف سے جنگی جرائم کا ارتکاب

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 اکتوبر 2020ء) اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے یمن میں بنیادی شہری ڈھانچے کو نشانہ بنایا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت اس طرح کے حملے جنگی جرائم کے مترادف ہیں جبکہ سعودی قیادت والے اتحاد کا دعویٰ ہے کہ یمن میں اُس کے ملٹری آپریشنز بین الاقوامی سے مطابقت رکھتے ہیں۔

یمن میں پُلوں کی تباہی

یمنی آرکائیو کی جانب سے فراہم کیے گئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یمن میں 2015ء سے 2019 ء کے دوران سعودی اتحادیوں نے 130 پُلوں کو اپنے حملے کا نشانہ بنایا۔ ان میں سے متعدد حملے ایسے تھے جو چند گھنٹوں کے وقفے سے دوبارہ کیے گئے، جن کا مقصد ہدف کو مکمل طور پر تباہ کرنا تھا۔

(جاری ہے)

ان میں سے بہت سے پُل ایسے تھے جو جنگ سے تباہ حال یمنی باشندوں کی نقل و حرکت کے لیے 'لائف لائن‘ کی حیثیت رکھنے والی سڑکوں کے کلیدی نیٹ ورکس کو ملانے کا اہم کام انجام دے رہے تھے۔

یاد رہے کہ 2015 ء میں سعودی عرب اور اُس کے اتحادیوں نے منصور ہادی کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کو دوبارہ سے بحال کرنے کے لیے شیعہ حوثی فورسز کے خلاف فضائی حملوں کی مہم شروع کی تھی۔

یمن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق کوائف یا ڈیٹا اکٹھا کرنے، ان کی تصدیق کرنے کا اہم کام ایک پروجیکٹ کے تحت شروع کیا گیا جس کا نام 'یمنی آرکائیو‘ ہے اور اس پروجیکٹ کے ڈائریکٹر عبدالرحمان الجلود ہیں۔

انہوں نے اینے ملک میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ عبدل رحمان الجلود کہتے ہیں،'' یہ حملے اچانک یا تصادفی حملے نہیں تھے بلکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ تمام حملے انتہائی منظم حملے تھے۔‘‘

زندگی اور موت کا معاملہ

جینیوا کنونشن کا کام یا اُس کے فرائض دراصل کسی مسلح تصادم کے دوران عام شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

جینیوا کنونشن کے تحت شہریوں اور ان کے انفرا اسٹرکچر یا بنیادی ڈھانچوں کو ہدف بنانا ،ان پر حملے کرنا دراصل جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس میں ایک استثناء یہ ہے کہ جب ان بنیادی ڈھانچوں یا شہری انفرا اسٹرکچر کو مکمل طور پر فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے، جیسے کہ ہتھیاروں یا فوجیوں کی آمد و رفت کے لیے استعمال کیا جائے ۔ تاہم بین الاقوامی قانون یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ایسی صورتحال میں یہ اصول اپنایا جانا چاہیے کہ شہری تنصیبات کو ہدف بنا کر حملہ کرنے سے آنے والی تباہی کا تناسب کیا ہوگا۔

یعنی متحارب فریقوں کو یہ طے کرنا چاہیے کہ جن اہداف کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ان پر حملے کے اثرات سویلینز یا شہریوں پر کس حد تک اور کس نوعیت کے ہوں گے۔

یمن کے زیادہ تر پُلوں کو شہریوں کے لیے اہم ترین انسانی امداد کی ترسیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یعنی 'انسانی جانوں کو بچانے کے لیے درکار ضروری غذائی اجزا کی مستحق افراد تک رسائی کے لیے۔

اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں 16 ملین انسان شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور مزید تین ملین غذائی قلت اور بھوک کے سبب انسانیت سوز صورتحال سے دوچار ہیں۔

یمنی آرکائیو تاہم فقط ایک پیش قدمی نہیں جس کے ذریعے یمن میں شہریوں کی 'لائف لائن‘ کے لیے پُلوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا اہم فریضہ انجام دے رہی ہے بلکہ 2016 ء میں آکسفام نے یمنی دارالحکومت صنعا اور بندرگاہی شہر حیدیدہ کے درمیان قائم پُلوں کی تباہی اور انہیں منہدم کرنے والے حملوں کی سخت مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ یہ ، ''تباہ کُن اقدامات پہلے سے تباہ حال انسانوں کو زندہ رہنے کے لیے اپنی غذا کا بندوبست کرنے تک سے محروم کر رہے ہیں۔

یہ حملے ملک کی پہلے ہی سے تباہی کی شکار صورتحال کو مزید ابتر اور نا گفتہ بہ بنا رہے ہیں۔‘‘

یمن کے پُلوں پر سعودی اتحادیوں کے حملوں نے لاتعداد انسانی جانیں لی ہیں۔ 2015 ء سے اب تک پُلوں پر کیے جانے والے ڈبل ٹیپ‘ یعنی تھوڑے وقفے سے دوبارہ ہونے والے حملے کے نتیجے میں 150 افراد ہلاک ہو چُکے ہیں۔ بہت سی اموات اُن رضاکاروں کی ہوئیں جو پہلے حملے کے بعد حملے کا شکار ہونے والوں کی لاشوں اور بچ جانے والوں کی تلاش کا کام کررہے تھے۔

یمنی آرکائیو نامی پروجیکٹ میں یمن کے ایک پُل پر سعودی اتحادیوں کے ایک حملے کے ایک عینی شاہد کا کہنا تھا، ''میرا بھائی بصام اور اس کا ایک دوست ایک پُل پر ہونے والے میزائل حملے کی زد میں آنے والے افراد کی مدد کے لیے دوڑے، کچھ ہی دیر میں دوسرا میزائل برسا اور میرا بھائی اور اس کا دوست موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔‘‘ یہ واقعہ 2015 ء میں ساحلی شہر عدن کو دارالحکومت صنعاء سے ملانے والے ایک پُل پر ہونے والے حملے سے متعلق ہے۔

2015 ء مارچ کے ماہ میں یمن پر سعودی اتحادیوں کے حملے اور تب سے جاری جنگ میں اب تک ایک لاکھ سے زائد انسان لقمہ اجل بن چُکے ہیں۔ Armed Conflict Location & Event Data Project (ACLED) کے مطابق اب تک جنگ کے سبب قحط کے شکار مزید 85 ہزار بھوک سے ہلاک ہو چُکے ہیں۔

'یمنی آرکائیو‘ کے ڈائریکٹر عبدالرحمان الجلود نے کہا کہ،'' انہیں امید ہے کہ اس رپورٹ سے یمن میں پُلوں کو نشانہ بنانے والے حملوں اور ان کے نتیجے میں انسانیت سوز صورتحال کے شکار افراد کی کسمپرسی کی خبریں دنیا بھر میں پہنچیں گی۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور یمنی باشندے اب بھی اسی طرح مر رہے ہیں۔

لوئیس سانڈرس/ ک م/ ع ت