گردشی قرضہ ،وائرس اور سیاست کے بعد زراعت بھی معیشت کے لئے خطرہ بن گئی: میاں زاہد حسین

اربوں ڈالر کی کپاس درآمد کرنا ہوگی جس سے خسارہ بڑھ جائے گا، بینک نجی شعبوں کو قرضے دینے پر مجبور ہو گئے ہیں

بدھ 11 نومبر 2020 15:50

گردشی قرضہ ،وائرس اور سیاست کے بعد زراعت بھی معیشت کے لئے خطرہ بن گئی: ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 نومبر2020ء) ایف پی سی سی آئی کے نیشنل بزنس گروپ کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ گردشی قرضہ، کرونا وائرس، عالمی منڈی میں ڈیمانڈ کی کمی، ایف اے ٹی ایف، مہنگائی اور سیاسی محاذ آرائی کے بعد زراعت بھی ملکی معیشت کے لئے بڑا خطرہ بن گئی ہے۔

کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس اور روپے کی قدر میں حیران کن اضافے سے بیرونی قرضوں میں زبردست کمی آئی ہے جس سے حکومت کا قرضوں پر انحصار کم ہو گیا ہے اور اب بینکوں کے پاس صرف نجی شعبے کو قرضے دینے اور ہاؤس فنانسنگ کا آپشن بچا ہے جو معیشت کے لئے اچھا ہے کیونکہ اس سے سینکڑوں صنعتیں رواں ہو جائیں گی۔

(جاری ہے)

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کم شرح سود اور سستے قرضوں کی وجہ سے معاشی صورتحال بہتر ہو رہی ہے جس کا کریڈٹ مرکزی بینک کو جاتا ہے تاہم زرعی شعبے کی صورتحال مایوس کن ہے جو دیگر شعبوں کے لئے بڑا خطرہ ہے۔

ایک طرف کپاس جیسی اہم ترین فصل کی پیداوار انتہائی مایوس رہی ہے تو دوسری طرف دیگر اہم اجناس کی ذخیرہ اندوزی، منافع خوری، قیمتوں پر عدم کنٹرول اورا سمگلنگ بھی بلا روک ٹوک جاری ہے جس کا سارا اثر عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔گندم کاپیداواری ہدف 26.78 ملین ٹن مقرر کر دیا گیا ہے مگر آٹے کے بحران ، امدادی قیمت پر کشمکش ، مرکز اور صوبوں کے مابین الزامات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ، غیر معیاری بیج و ادویات، مہنگی کھاد، اورتوانائی کی قیمتوں سے یہ ہدف متاثر ہو سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ کپاس کی پیداوار میں 43 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے جو تشویشناک ہے۔کپاس کا ہدف15 ملین گانٹھ اورپیداوار 8.44 ملین گانٹھ ہے جبکہ آزاد تخمینوں کے مطابق اس سال پیداوار صرف 6ملین گانٹھ ہوگی ۔ٹیکسٹائل انڈسٹری کو14 سے 15 ملین گانٹھ کی ضرورت ہے جسے اربوں ڈالر کی درآمدات سے پورا کیا جائے گا جو تجارتی خسارے کو بڑھا دے گاجس سے سنگین مسائل جنم لینگے۔سال رواں کے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق تجارتی خسارہ گزشتہ سال کے مقابلہ میں کم نہیں ہوا بلکہ بڑھا ہے جس کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لئے ضروری اقدامات ضروری ہیں۔