پنجاب اسمبلی کا ایوان تیسرے روز بھی مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتا رہا ، سپیکرنے غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا

تیسرے روز بھی سوالات نہ ہو سکے ،محکمہ خزانہ کے سوالوں کے جوابات دیئے جانے تھے تاہم وقفہ سوالات نہ ہو سکا

جمعرات 12 نومبر 2020 13:30

پنجاب اسمبلی کا ایوان تیسرے روز بھی مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتا رہا ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 نومبر2020ء) پنجاب اسمبلی کا ایوان تیسرے روز بھی مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتا رہا ، سپیکر نے اجلاس اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا ، تیسرے روز بھی سوالات نہ ہو سکے ۔پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روزبھی مقررہ وقت کی بجائے 2 گھنٹے 26 منٹ کی تاخیر سے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی کی صدارت میں شروع ہوا۔

ایوان میں ایجنڈے کے مطابق محکمہ خزانہ کے سوالوں کے جوابات دیئے جانے تھے تاہم وقفہ سوالات نہ ہو سکا ۔اجلاس کے آغاز پر سپیکر کی اجازت سے مسلم لیگ (ن) کے سینئر رانا محمد اقبال نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے گندم کی قیمت 1650سو روپے فی من مقرر کرنے کی بات کی گئی ہے گندم کی قیمت کا مسئلہ حکومت یا اپوزیشن کا نہیں ہے ،گندم پر قرار داد متفقہ تھی جسے منظور ہونا چاہیے تھا،تین کسانوں کی شہادت پر کہتاہوں کہ زراعت ریڑھ کی ہڈی ہے اور کسانوں کے ساتھ بدترین سلوک کیاجاتاہے ،وزیر قانون کسانوں کی ہلاکت پر رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے ، پانی اور شیلنگ میںزہریلی کیمیکل سے کسانوں کی ہلاکت ہوئی ۔

(جاری ہے)

اپوزیشن رکن چودھری محمد اقبال گجر نے کہا کہ پنجاب میں گندم کی فصل منافع بخش نہیں رہی بلکہ کسانوںکا خرچہ بھی پورا نہیں ہوتا،قیمت نہ بڑھائی گئی توگندم کا بحران پیدا ہوجائے گا ، گندم کی قیمت کو بڑھنا چاہیے ،پنجاب کو برصغیر پاک و ہند میں سونے کی چڑیا اور فوڈ باسکٹ سمجھا جاتا ہے، اب ہم گندم باہر سے منگوا رہے ہیں جو افسوسناک ہے ،ملک کو قحط سے بچانے کیلئے گندم کی قیمت بڑھائی جائے ۔

پیپلز پارٹی پنجاب کے پارلیمانی لیڈڑ سیدحسن مرتضی نے اپنے خطاب میںکہا کہ کاشتکاروں کی بات کو مذاق بنایاجاتاہے ،جب تک گندم وافر نہیں ہوگی اناج میں خود کفیل نہیں ہوں گے کیا کریں گے چودہ سو والی گندم اٹھائیس سو میں مل رہی ہے بیج یا ادویات کسانوں کے بجائے کمپنیوں کودئیے جاتے ہیں جس طرح چیمبر آف کامرس ہے اسی طرح چیمبر آف ایگری کلچر بھی فعال کیا جائے ، اس کی زمین تو خریدی ہوئی ہے لیکن پرائیویٹ لوگوں کے نام پر غیر فعال ہے ،نابینا افراد سے ایک معاہدہ ہوا لیکن اسے پورا نہیں کیا گیا ،صحافی بھی سڑکوں پر حق کیلئے سڑکوں پر ہیں۔

چینلز کوبند اور میڈیا مالکان کو جیل میں ڈال کر حکومت اپنا موقف دینے کیلئے دبائو ڈال رہی ہے ،موجودہ حکومت کی نالائقی اور غلط پالیسیوںکی قیمت اگلی دس نسلیں بھی پوری نہیںکرسکیں گی ،ضد ہٹ دھرمی قوم کو تباہی کی طرف لے جارہی ہیںحکومت نے معاشرے کو تباہ و برباد کر دیاہے۔ وزیر قانون راجہ بشارت نے کہا کہ کل کیبنٹ میٹنگ میں فیصلہ ہوا ہے جب پنجاب اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ قرارداد کے بارے میں تحریری وفاق کو کچھ نہیں ملا تو اس پر بات کرنا نامناسب ہے ،وزیر اعلی سے بات ہوئی ہے وہ خود بھی سپیکر سے بات کریں گے جو مناسب فیصلہ مشاورت سے ہوگا وہ حکومت کیلئے قابل قبول ہوگا۔

آج تین کسانوں کی ہلاکت کی بات کی گئی ہے دس دن ٹھہر جائیں یہ تعداد پچاس پر لے جائیں گے ،کسانوں کی ہلاکت پر اپوزیشن موقف ایک کرلے تاکہ مزید بات ہو سکے ،باتیں کرنا آسان عملی طورپر فیصلہ صادر کروانا مشکل کام ہے ، کرشنگ سیزن میں مل مالکان مرضی سے کرتے جس سے کسان بلیک میل ہوتے تھے پہلی بار ہوا ہے کہ سنٹرل اور جنوبی پنجاب میں قانون کے تحت مل مالکان کو کرشنگ سیزن حکومتی اعلان کے بعد ہوا ہے ،کسان ملوں کو جو گنا دیتے موجودہ قانون کے مطابق مل مالکان کرشنگ سیزن کے بعد تین ماہ کے اندر کسانوں کی تمام رقوم دیں گے وگرنہ جرمانہ ہوگا،کسانوں کے مفاد کا تحفظ قانون کے ذریعے کیا جائے گا ،کسان کہتے رہے کرشنگ سیزن پر مل مالکان پر پابندی نہ لگائیں مل مالکان مارچ کے بعد قانون نافذ کریں اگر مل بند ہو جائے گی تو کسان کی ریکوری کیسے ہوگی ،نامی گرامی شخصیات نے اربوں روپے کسانوں کے گنے کی مد میںدینے ہیں اور میں اس کی فہرست ایوان میں پیش کر سکتا ہوں ۔

وزیر قانون نے کہا کہ پہلے اپنی بات مکمل کروں گا پھر کوئی اور بات کرے گامعزز ایوان کو مذاق بنایاگیاہے ،کھڑے ہوکر کہتے قوم کو تباہی ملک و صوبے کو تباہی کے دہانے پر لے کر گئے ہیںمیں ،انہیں سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہاکہ انہوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا۔ سپیکر نے مائیک اپوزیشن رکن طاہر خلیل سندھو کر دیدیا جس پر ایک بار پھرحکومت اور اپوزیشن کے درمیان گرما گرمی ہوئی اور سپیکر چیئر کے سامنے آکر ایک دوسرے کے خلاف ننعرے بازی کرتے رہے ۔ احتجاج کے دوران اپوزیشن اراکین کی جانب سے سیٹیاں بھی بجائی گئیں، اپوزیشن اراکین نے تیسرے روز بھی ایوان میں کتبے اور بینرز لہرا دئیے ۔سپیکر نے دونوں جانب سے بات نہ سنے جانے پر اجلاس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا۔