بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات اور متوازن خوراک کے لیے غیر روائتی ہائی ویلیو فصلات کی زیادہ سے زیادہ کاشت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے

اس مقصد کے لیے قینوا سمیت متبادل غذائی اجناس کے حوالے سے دنیا بھر کے سائنسدانوں کو مربوط کاوشیں بروئے کار لانا ہونگی

جمعہ 20 نومبر 2020 17:56

بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات اور متوازن خوراک کے لیے غیر روائتی ..
فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 نومبر2020ء) بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات اور متوازن خوراک کے لیے غیر روائتی ہائی ویلیو فصلات کی زیادہ سے زیادہ کاشت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔اس مقصد کے لیے قینوا سمیت متبادل غذائی اجناس کے حوالے سے دنیا بھر کے سائنسدانوں کو مربوط کاوشیں بروئے کار لانا ہونگی۔ان باتوں کا اظہار زرعی یونیوسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے دو روزہ اسٹیک ہولڈرز ورکشاپ کے اختتامی سیشن کی صدارت کے دوران کیا۔

قینوا کا بطور غذاء و چارہ فروغ اور متبادل غذائی جنس کے موضوع پر منعقدہ ورکشاپ کا انعقاد ڈیپارٹمنٹ آف ایگرانومی نے ایف اے او کے اشتراک سے کیا تھا۔ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے کہا کہ دنیا بھر میں غذائی حوالے سے انتہائی طاقت ور اجزاء اور صحت کے وسیع امکانات کی حامل یہ فصل گندم،مکئی اور چاول کے متبادل کے طور پر تیزی سے اپنائی جا رہی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ مارکیٹنگ نظام میں پائی جانے والی خامیوں کے باعث پاکستان ابھی تک عالمی سطح پر قینوا کی برآمدات میں سے اپنا حصہ وصول نہیں کر پایا جس کی وجہ سے کسان کو پر کشش معاوضہ میسر نہیں آرہا۔انہوں نے کہا کہ فائبر کی زیادہ مقدار کے علاوہ قینوا میں میگنیشیم،ملٹی وٹامنز، آئرن،پوٹاشیئم،کیلشیم،فاسفورس کے ساتھ ساتھ اس میں اینٹی آکسیڈنٹس وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں جس سے انسان کو متوازن غذاء دستیاب ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں فی ایکڑ پیداوار بیس من تک محدود ہے جبکہ دنیا بھر میں پچاس من تک فی ایکڑ پیداوار حاصل کی جا رہی ہے جو کہ ہمارے سائنسدانوں کے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ایف اے او کے نمائندے بوزو نے کہا کہ چائنہ کا شمار دنیا کے بڑے قینوا پیدا کرنے والے مما لک میں ہوتا ہے۔قینوا کے استعمال سے ترقی پزیر ممالک میں غذائیت کی کمی جیسے مسائل پر قابو پایا جا سکے گا۔

ایف اے او کے نمائندے ڈاکٹر شکیل خان نے کہا کہ قینوا کی کاشت کے فروغ اور کاشتکاروں میں آگاہی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس میں ملک کے تمام صوبوں کے ماہرین اور ترقی پسند کاشتکاروں نے حصہ لیا۔ڈین ایگریکلچر ڈاکٹر جاوید اختر نے کہا کہ قدرت نے پاکستان کو بہترین آب و ہوا اور موسموں سے نوازا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ قینوا کی کاشت کو فروغ دے کر نا صرف فوڈ سکیورٹی کے چیلنج کاسامنا کیا جا سکے گا بلکہ اس کو برآمدسے اربوں روپے بھی بچائے جا سکیں گے۔چئیرمین ایگرانومی ڈاکٹر شہزاد بسرا نے بتایا کہ پنجاب سیڈ کونسل نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی تیار کی ہوئی قینوا کی ورائٹی کی منظوری دے دی ہے جس سے چالیس من فی ایکڑ تک کی پیدا وا ر حاصل کی جا سکے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ زرعی یونیورسٹی کے سائنسدان 2009سے قینوا کی ورائٹی کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کاشتکاروں پر زور دیا کہ ویلیو ایڈیشن کو اپنا کر ہی زراعت کو نفع بخش بنایا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر عرفان افضل نے کہا کہ 2017میں دنیا بھر میں قینوا کے بیج کی منڈی سات سو بیاسی ملین ڈالر تھی جو کہ 2025تک ایک بلین ڈالر سے زائد ہو جائے گی۔انہوں نے کہا کہ یورپین ممالک میں قینوا کی برآمدات کچھ سالوں سے بڑھ رہی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کچھ ممالک میں قینوا کوبنیادی غذاء کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔