ایک جمہوری ریاست میں آزاد شہریوں کی جبری گمشدگی قانون وانصاف کے منہ پر طمانچہ ہے، علامہ احمد اقبال رضوی

پولیس اور عدالتوں کے ہوتے ہوئے شہریوں کو گھروں سے غائب کرنا عدم تحفظ کے احساس کو تقویت دے رہا ہے، مسنگ پرسن اہل خانہ کی پریس کانفرنس

ہفتہ 19 دسمبر 2020 00:11

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 دسمبر2020ء) جوائنٹ ایکشن کمیٹی فار شیعہ مسنگ پرسنز کے رہنما علامہ احمداقبال رضوی نے کراچی پریس کلب میں نیوزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک جمہوری ریاست میں آزاد شہریوں کی جبری گمشدگی قانون وانصاف کے منہ پر طمانچہ ہے۔ پولیس اور عدالتوں کے ہوتے ہوئے شہریوں کو ان کے گھروں سے غائب کرنا لاقانونیت اور عدم تحفظ کے احساس کو تقویت دے رہا ہے۔

قانون کی بالادستی محض زبانی دعووں سے ممکن نہیں اس کے لیے مقتدر اداروں کی جانب سے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔انہوں نے کہا لاپتا افراد کی بازیابی کو متعلقہ ریاستی اداروں نے معمہ بن رکھا ہے۔گزشتہ کہیں سالوں سے جھوٹی طفل تسلیوں سے بہلایا جا رہا ہے۔ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے،اگر ہمارے پیاروں کو ہم سے نہ ملایا گیا تو ملک کے مختلف علاقوں سے جبری لاپتا ہونے والے افراد کے اہل خانہ اپنے اپنے شہروں میں تادم مرگ بھوک ہرتال کا اعلان کریں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ملت تشیع ایک پُرامن قوم ہے اور ہم نے ہمیشہ اپنے جائز مطالبات کی منظوری کے لیے صرف قانونی و آئینی راستے کا ہی انتخاب کیا ہے۔ ہمارے گمشدہ افراد اگر کسی ادارے کی تحویل میں ہیں تو انہیں قانون کے مطابق عدالتوں میں پیش کیا جائیں اور جرم ثابت ہونے کی صورت میں قانون کے مطابق سزا دی جائے تاہم بیلنس پالیسی یا شیعہ مخالفین کی خوشنودی کے لیے بے گناہ افراد کی جبری گمشدگی جیسا ظلم ناقابل قبول ہے۔

انہوں نے کہ یہ سلسلہ گزشتہ پانچ سالوں سے جاری ہے۔لاپتا افراد کے اہل خانہ زندگی اور موت کی درمیانی کیفیت میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ان کے اہل خانہ کو مکمل معلومات سے آگہی ان کا قانونی حق ہے جسے بدترین انداز سے پامال کیا جارہا ہے۔کورونا وائرس جیسی موذی مرض کے پھیلاؤ نے اہل خانہ کے خدشات بڑھا کر ان کی بے چینی میں اضافہ کر دیا ہے وہ اپنے کھوئے ہوؤں کی خیریت جاننے چاہتے ہیں۔

شرکاء پریس کانفرنس نے کہا کہ بے گناہ شہریوں کو جبری لاپتا کرنا قانون و انصاف کا قتل اور آئین پاکستان سے صریحاًً انحراف ہے۔جمہوری حکومت کے اس آمرانہ اقدام کے خلاف ملک کی ہر گلی محلے میں آواز بلند کی جائے گی۔ ہم نے ہمیشہ مظلوم کی حمایت اور ظلم کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ ملت کے لاپتا نوجوانوں کو عدالتوں میں پیش نہ کیا جانا اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ انہیں بلاجواز حراست میں رکھا ہوا ہے۔

انہوں نے وزیر اعظم، آرمی چیف،چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیر داخلہ سے مطالبہ کیا ہے کہ اس اہم مسئلہ کی سنگینی کا ادراک کریں اور ان خاندانوں کے دُکھ کو سمجھیں جن کے بچے کئی سالوں سے لاپتہ ہیں۔ ریاستی اداروں کے اعلی حکام اور حکومتی وزراء سے متعدد ملاقاتیں زبانی جمع خرچ کی نذر ہو چکی ہیں۔بیشتر مسنگ پرسن کے والدیں اپنے پیاروں کی شکل دیکھے بغیر اس دنیا سے انتقال کر گئے اور لاپتہ افراد کو مرحومین کے مراسم تدفین میں شرکت اور آخری دیدار سے محروم رکھا گیا۔

انصاف کے تقاضوں اور انسانی قدروں کی اس سے بڑھ کر اور کیا تذلیل ہو گی۔انہوں نے کہا کہ نومبر میں ہم نے علامتی بھوک ہرتال کی تھی۔25دسمبر کو قائد اعظم کے مزار پر سہ پہر تین بجے بھرپور احتجاج کیا جائے گا اور بانی پاکستان سے سوال کریں گے کہ ارض پاک کا قیام آئین و قانون کی بالادستی کے لیے ہوا تھا یا طاقت و اختیارات کی حکمرانی مقصود تھی۔

اس کے بعد احتجاج کا سلسلہ ملک کے دیگر شہروں تک پھیلایا جائے گا۔ ہم جنیوا سمیت دنیا بھر میں اپنی مظلومیت بیان کریں گے۔اگر ہماری کہیں بھی شنوائی نہ ہوئی تو گمشدگان کے اہل خانہ اسلام آباد پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے بیٹھ کر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں گے۔کانفرنس میں عارف الجانی، علامہ حیدر عباس عابدی ،علامہ عقیل موسی،علامہ صادق جعفری،علامہمبشر حسن ،خواہر معصومہ ،نوید حسن سمیت لاپتہ افرادکے اہل خانہ موجود تھے۔