کالعدم تنظیمیں کالوجود کیسے رہتی ہیں؟

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 16 اپریل 2021 16:00

کالعدم تنظیمیں کالوجود کیسے رہتی ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اپریل 2021ء) بے دھڑک الزام دھرتے تھے اور خانہِ خدا میں قرآن سامنے رکھ کر دشنام پیلتے تھے۔ زمین پر کچھ مثالیں اگر انہوں نے قائم کی ہیں تو وہ جلاو گھیراو اور توڑ پھوڑ کی مثالیں ہیں۔ ورثے میں ہمیں وہ سعد نامی گرما گرم توے سے اترا ہوا ایک جوان اور فتنہ وفساد کی ایک روایت دے کر گئے ہیں۔ آج پورے پاکستان میں خدا کے نام پر لبیکیوں نے جو دہرایا ہے یہ وہی آموختہ ہے، جو علامہ انہیں تعلیم کر کے گئے تھے۔

جو دھنگے اِن دنوں ہوئے، اس پر وہ لوگ بھی سیخ پا نظر آئے، جو علامہ مرحوم کے جنازے میں پہلی صف میں کھڑے تھے۔ جن کی آنکھ میں تھوڑا سا پانی تھا، وہ پچھلی صفوں میں کھڑے تھے کہ قرض دار کہیں دیکھ نہ لیں۔ کسی شرعی عذر کی وجہ سے جو لوگ جنازے میں شرکت نہ کر سکے وہ سوشل میڈیا پر علامہ کے جنازے کی تصاویر پھیلا کر اپنی آخرت سنوار رہے تھے۔

(جاری ہے)

یہ لوگ ایک زمانے سے علامہ کی شان میں رزمیہ کہنا چاہتے تھے مگر اس واسطے چپ تھے کہ انسان دوستی کے دعوے پر کوئی حرف نہ آ جائے۔ مرحوم کی رحلت کی صورت میں خدا نے موقع دیا تو یہ رسیاں توڑ کر گلی محلے میں نکل آئے۔ قصیدوں کے آغاز میں احتیاطا ''اگر چہ علامہ سے کئی باتوں پر مجھے اختلاف ہے‘‘ والا وظیفہ پڑھ کر کی بورڈ پر پھونکا تاکہ کعبے جانے کو کچھ منہ رہ جائے، اور پھر علامہ کی ذات والا صفات پر وہ سارا ذخیرہ الفاظ وار دیا، جو سینوں میں جانے کب سے پک رہا تھا۔

جی حضور! یہ بالکل وہی لوگ تھے، جو خدائی فیتے سے علامہ کی نمازِ جنازہ کی پیمائش کرتے ہوئے پائے گئے تھے۔ اکثریت اِن میں اُن کی تھی، جو جنازے کی تعداد کو حق اور سچ کی آسمانی گواہی قرار دے رہے تھے۔ اس بیانیے کی رو سے اگر دیکھا جائے تو بر صغیر پاک و ہند میں دو ہی لوگ تھے، جن سے خدا کی ذات راضی برضا تھی۔ ایک تحریک لبیک کے علامہ خادم رضوی، دوسرے شیو سینا کے بال ٹھاکرے۔

جن لوگوں سے خدا ناراض رہا ان میں مدر ٹریسا اور عبدالستار ایدھی سر فہرست رہے۔ تم ہی کہو، کور چشموں کی ایسی نامراد بستی میں سائیں امر جلیل کیا لکھے اور کیا نہ لکھے۔

حالیہ دھنگوں پر جن کے قلم کو آج اچانک سے بال توڑ ہوا ہے، ان کے چہرے غور سے پڑھیں اور پھر زبانی یاد کر لیجیے۔ ان میں نمایاں تعداد ان کی ہے، جنہیں دراصل ٹریفک جام کی وجہ سے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

کوئی دفتر نہ پہنچ سکا، کسی کی گاڑی خراب ہو گئی، کسی کا وقت ضائع ہو گیا، کسی کی میٹنگ نہ ہو سکی، کسی نے لاکھوں ہار دیے،کوئی بروقت شفا خانے نہ پہنچ سکا، کسی کی ٹرین چھوٹ گئی، کسی کی فلائٹ نکل گئی، کسی کو انتظار کا کرب کھا گیا، کسی کا وصل مارا گیا اور کسی کے بچے گرمی میں رلتے رہ گئے۔

جب تک یہ اذیت سے گزرتے رہے، تب تک ان کی مذمتیں چونکہ چنانچہ اور اگر مگر کی آلودگیوں سے بالکل پاک رہیں۔

ساتھ خیریت کے گھر پہنچ کر انہوں نے ٹھنڈا پانی پیا تو عقل و ہوش کی سب حالتیں بحال ہونا شروع ہو گئیں۔ دھیرے دھیرے انہیں یاد آنے لگا کہ ارے ہم خود بھی تو کسی نہ کسی درجے میں مسلمان ہیں۔ لبیکیوں کی ایسی دو ٹوک مذمتیں کہیں خدا کے قہر کو دعوت ہی نہ دے دیں۔ یہ احساس پیدا ہوتے ہی انہوں نے کفارے کی نیت سے حکومت پر سوال اٹھانا شروع کر دیے کہ آخر سعد رضوی کو گرفتار کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ وعدہ کیا تھا تو پھر سفیر کو کان سے پکڑ کے باہر نکالتے، الٹا شیخ بچے کو گدی سے پکڑ کے اندر کیوں کر دیا۔

جو لوگ بلوائیوں کی مذمت کر رہے ہیں، کیا ضمانت ہے کہ کل کلاں جب سعد رضوی گزریں گے تو یہ ان کے جنازے کی پیمائش کے لیے فیتے لہراتے ہوئے باہر نہیں آئیں گے۔ کون یقین سے کہہ سکتا ہے کہ جب کل بلوائیوں کے جنازے اٹھیں گے تو یہ چھتوں سے گُل پاشی نہیں کریں گے۔ بات یہ ہے کہ قیدِ حیات اور بندِ غم کی طرح یہ دونوں اصل میں ایک ہیں۔ ان کے صرف اوقاتِ کار میں فرق ہے۔

بے روزگار بلوائی صور پھونکتے ہی ہلہ بول دیتے ہیں اور بر سرِ روزگار قلم کار اطمینان سے ایک طرف بیٹھ کر حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ چلتی بس کی طرف یہ تب ہی لپکتے ہیں، جب انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ اب سیٹ بھی مل جائے گی اور استری بھی خراب نہیں ہو گی۔

پاکستان: بگڑا گھر اور الجھے خواب

پاکستانی سیاسی جماعتوں میں انتہا پسند عناصر کی جگہ کیوں بنی

دراصل یہ وہ قبیلہ ہے، جو فتنہ وفساد کے ہر موقع پر بلوائیوں کے متعلق ایک جملہ اچھال کر ٹھنڈے پیٹوں چھاوں میں بیٹھ جاتا ہے۔

جملے کی ترکیب کچھ یوں ہوتی ہے، ''ان کی بات تو ٹھیک ہے، مگر ان کے طریقہ کار سے ہمیں اختلاف ہے۔‘‘

صدیوں کے اس سفر میں اتنی سی بات ہم نہ جان پائے کہ جسے ہم طریقہ کار کہتے ہیں وہ دراصل کسی بات کا ہی تو لازمی نتیجہ ہے۔ اگر وہ بات ہی بغیر کسی چوں اور چراں کے ٹھیک ہے تو طریقہ کار کا سدِ باب کیسے ہو سکتا ہے۔ طریقہ کار تو ہماری رائے میں سپاہ صحابہ کا بھی غلط تھا۔

بارہ مہینوں میں بارہ طریقوں سے یہ تنظیم کالعدم قرار دی جاتی ہے، مگر نتیجہ کیا ہے؟ آج یہ تنظیم ایک اور نام سے الیکشن کمیشن میں سیاسی جماعت کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہے۔ کھلے بندوں یہ تنظیم الیکشن لڑتی ہے اور شملہ ہلاتی ہوئی ملک کی سب سے بڑی صوبائی اسمبلی میں پہنچ جاتی ہے۔

اسمبلی میں ہی پہنچتی تو کیا غم تھا۔ غم تو یہ ہے کہ اس اسمبلی میں نفرت انگیز مواد کی اشاعت کا معاملہ زیر بحث آتا ہے تو ایک کمیٹی بنائی جاتی ہے تاکہ فرقہ وارانہ مواد پر مبنی کتابوں کی نشاندہی کی جا سکے۔

اس کمیٹی کی سربراہی معلوم فرقہ پرور تنظیم سپاہ صحابہ کے معلوم فرقہ پرست ممبر کو سونپ دی جاتی ہے۔ سوچنا چاہیے کہ لوگ جس کے سبب بیمار ہوئے ہوتے ہیں، عطار کے اُسی لونڈے سے دوا لینے کیوں پہنچ جاتے ہیں؟ اس لیے کہ ہمارا ماننا یہ ہوتا ہے کہ ان لونڈوں کا صرف طریقہ کار غلط ہوتا ہے، بات تو سولہ آنے درست ہوتی ہے۔

بات یہ ہے کہ یہاں ہر دس کلومیٹر کے بعد قبضے کی زمینوں پر فتوی ساز کارخانے لگے ہوئے ہیں۔

ان کارخانوں کی چمنیوں سے مسلسل نفرت کا دھواں اٹھ رہا ہے۔ اس دھویں کے نتیجے میں ماحولیاتی آلودگی ہی پھیل سکتی ہے اور وہ پھیل رہی ہے۔ اب جنہیں کارخانے سے مسئلہ نہیں ہے، اس کی بھٹیوں میں دہکتے الاو سے مسئلہ نہیں ہے، اس سے اٹھتے ہوئے دھویں سے مسئلہ نہیں ہے کیسے مان لیا جائے کہ انہیں آلودگی سے کوئی مسئلہ ہے؟

ہوتا ہے، آلودگی سے انہیں بھی مسئلہ ہوتا ہے مگر تب کہ جب زد میں ان کا اپنا مکان آجاتا ہے۔

جب تک اپنے گھر میں دھواں بھرا رہتا ہے چیخ رہے ہوتے ہیں، دھواں کچھ کم ہوتا ہے تو دامن جھاڑ کے کہہ دیتے ہیں ''حرکت تو ٹھیک تھی بس طریقہ کار غلط تھا۔‘‘ اس جملے کا بامحاورہ ترجمہ یہ ہوتا ہے کہ بھئی مشال خان، پروفیسر خالد حمید، ڈاکٹر شکیل اوج اور جنید حفیظ تک رہو، ہماری گردن کس کھاتے میں ناپ رہے ہو۔

سائنس کا کوئی بھی کلیہ اور منطق کا کوئی بھی قضیہ لڑا لیا جائے، دھویں کے پیچھے موجود کارخانوں کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کو نتائج کی ذمہ داری سے بری نہیں کیا جا سکتا۔

نفرت کی ''بات‘‘ کو ہمارے قومی بیانیے میں جب تک احترام حاصل ہے، تب تک اطمینان رکھنا چاہیے کہ سپاہ صحابہ کی طرح تحریک لبیک بھی کہیں نہیں جاتی۔ کالعدم والا حربہ یہاں کسی کی طاقت کو محدود کرنے کے لیے نہیں آزمایا جاتا، طاقت کے اعتراف میں آزمایا جاتا ہے۔