ہمارا یہ مشن ہے کہ ایف پی سی سی آئی کوایسا مضبوط ادارہ بنادیں: حنیف لاکھانی

حکومت بھی فیڈریشن کی قیادت سے مشاورت پر مجبور ہوجائے، ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت وقت کاروبار کی ترقی کیلئے وسائل مہیا کری: نائب صدر ایف پی سی سی آئی

بدھ 12 مئی 2021 21:21

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 مئی2021ء) ایف پی سی سی آئی کے نائب صدرحنیف لاکھانی نے کہا ہے کہ ہمارا یہ مشن ہے کہ ایف پی سی سی آئی کوایسا مضبوط ادارہ بنادیں کہ حکومت بھی فیڈریشن کی قیادت سے مشاورت پر مجبور ہوجائے، ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت وقت کاروبار کی ترقی کیلئے وسائل مہیا کرے ،ایکسپورٹ بڑھانے کیلئے ایکسپورٹرز کو سہولیات مہیا کی جائیں اورہم حکومت تک بزنس کمیونٹی کی آواز پہنچا رہے ہیں اس کے علاوہ ہم صدر ایف پی سی سی آئی میاں ناصر حیات مگوں کی قیادت میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کو" فیکی " جیسامضبوط ادارہ بنانے کی جدوجہد کررہے ہیں۔

حنیف لاکھانی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ فیڈریشن کا ریسرچ ڈیپارٹمنٹ فعال نہیں ہے اور ریسرچ کے بغیر کوئی ادارہ ترقی کے منازل طے نہیں کرسکتا، لیکن اب فیڈریشن کے ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کو فعال بنایا جارہا ہے، ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے ذریعہ ہم نہ صرف حکومت کی مدد کرسکتے ہیں بلکہ بزنس کمیونٹی کو بھی اس کے ذریعہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

(جاری ہے)

ایکسپورٹ کے حوالے سے ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر کا کہنا تھا کہ ملکی برآمدات میں تیزی آرہی ہے لیکن ہمارا سروائیول اور گروتھ اس بات پر منحصر ہے کہ ہم کس حد تک ایکسپورٹ کو بڑھا سکتے ہیں،پاکستان22کروڑ سے زائد آبادی کا ملک ہے اورہماری ایکسپورٹ صرف 24تا 25ارب ڈالر ہے اور کسی بھی طرح پاکستان کی معیشت کیلئے استحکام کا سبب نہیںہے،اگر ہم اپنے مقابلے میں ویتنام کو دیکھیں توآئندہ دو سے تین سال میںانکی ایکسپورٹ 150سے 200بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی اسی طرح کبھی ہمارا حصہ رہنے والا بنگلہ دیش آج 40ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کے دائرے میں قدم رکھ چکا ہے اور ان جیسے کئی ممالک کی ایکسپورٹ کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بات باعث تشویش ہے کہ پاکستان کی ایکسپورٹ 22سی24ارب ڈالر کے درمیان ہی گھوم رہی ہے تاہم ایکسپورٹ میں اب تیزی آنا شروع ہوگئی ہے۔

انہوں نے حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد ایکسپورٹ سیکٹر کیلئے اصلاحات کیں جس میں ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی کرنا ،بینک فنانس کی سلوہت مہیا کرنا اور دیگر اقدامات شامل تھے جن کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں ،یقین ہے کہ جلد ہی پاکستان کے اچھے دن آنے والے ہیں، ایکسپورٹ بڑھنے سے ملکی صنعتکاروں اورسرمایہ کاروں نے بھی انڈسٹریل سیکٹر میں نئے یونٹ لگانے اور پہلے سے قائم صنعتوں کی توسیع کا عمل شروع کردیا، ممکن ہے کہ ابھی لوگوں کو یہ سب نظر نہ آئے لیکن میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں اس وقت بہت بڑے والیوم میں مشینری پاکستان میں امپورٹ ہورہی ہے جو پاکستان کے مختلف ایکسپورٹ زونز میں اور شہروں میں لگ رہی ہے اور پروڈکشن بھی جلد ہی نظر آئے گی اور اس کے بہتر اثرات ایکسپورٹ میں بھی سامنے آئیں گے۔

کروناوائرس سے پاکستان کی انڈسٹری کے متاثر ہونے کے حوالے سے ایک سوال پر حنیف لاکھانی کا کہنا تھا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ادا کرنا چاہیئیکہ پاکستان دنیا کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میںکرونا سے اس حد تک متاثر نہیں ہوا جتنا دوسرے ممالک ہوئے ہیں،حکومت نے کورونا 19سے بچائوکیلئے جو اقدامات کئے اس کی وجہ سے ملکی اکنامی پر اس طرح سے منفی اثر نہیں پڑا جیسا دوسرے ممالک کی اکنامی پر آیا ہے،مثلاًفلپائن کی اکنامی پچھلے سال کووڈ کی وجہ سے منفی9فیصد گروتھ پر گئی جبکہ پاکستان کی اکنامی کی گروتھ پچھلے سال کووڈ کی وجہ سے منفی0.5فیصد رہی ہے،کووڈ سے متاثرہ صنعتوں کیلئے حکومت اور اسٹیٹ نے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے جو پیکج دیاوہ ایک بہت بڑا ریلیف تھا اور اس ریلیف کے بعد نہ تو کسی مزدورکی تنخواہ کم کی گئی اور نہ ہی کسی ملازم کو نوکری سے نکالا گیا ،اس کے علاوہ حکومت نے کووڈ کی وجہ سے ایک نئی اسکیم دی تھی جس کے تحت نئی صنعتوں اور پہلے سے چلنے والی صنعتوں میں نئی مشینری لگانے کیلئے فنانس کی سہولت دی گئی ،حکومت کے اس اقدام سے کاروباری افراد اس جانب راغب ہوئے اور نئے یونٹ بھی لگے ہیں۔

کووڈ کے پہلے فیز نے دنیا کی اکنامی کو پلٹ کر رکھ دیا ہے لیکن خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کا ایکسپورٹ بڑھ رہا ہے، پاکستان سے تولیہ اور بیڈشیٹس کی ضرورت سے کہیں زیادہ ڈیمانڈ بڑھ گئی ہے،بھارت کو ہمارا مسا بقتی ملک ہے وہاں کووڈ 19کی وجہ سے بہت زیادہ تباہی آئی ہے اوروہاں صنعتی پیداوار بھی بری طرح سے متاثر ہوئی تو پاکستان کو اسکا بھی فائدہ پہنچا اور جو مارکیٹیں ہمارے پاس سے پانچ اورسات سال پہلے چلی گئی تھیں وہ واپس پاکستان کا رخ کرگئی ہیں