مہنگے ترین آم کی رکھوالی کے لیے 9 کتے اور گارڈز تعینات

کورونا وبا کی وجہ سے اس بار آم کی فصل کو بھی نقصان کا سامان کرناپڑے گا

Sajjad Qadir سجاد قادر ہفتہ 19 جون 2021 07:03

مہنگے ترین آم کی رکھوالی کے لیے 9 کتے اور گارڈز تعینات
مدھیا پردیش (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار ۔ 19 جون 2021ء ) بھارتی ریاست مدھیا پردیش کے شہر جبلپور میں ایک جوڑی نے دنیا کے مہنگے ترین آم کی رکھوالی کے لیے 9 کتے اور تین سیکیورٹی گارڈز تعینات کردئیے۔بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ’میازیکی مینگو‘ نامی آم کی قسم کا شمار دنیا کے مہنگے ترین آموں میں ہوتا ہے، آم کے باغات میں 150 سے زائد اقسام کے آموں کے درخت لگائے گئے جن میں سے صرف چار اقسام کے درخت پھل دے رہے ہیں۔

سنلکپ پریہار نامی کسان کے مطابق چار سال قبل ہم چنئی میں کھوپرے کی نایاب قسم کی تلاش میں نکلے تھے اس دوران ہمارے ایک ساتھی نے نایاب قسم کے آم سے متعلق بتایا۔انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر ہم اس آم سے متعلق زیادہ نہیں جانتے تھے تاہم جب ہم نے اس کا درخت اگایا تو اندازہ ہوا کہ یہ واقعی بہت نایاب ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق پریہار نے آم چوری ہونے کے ڈر سے اپنے باغات کی سیکیورٹی بڑھا دی۔

اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سال ہمارے آم کے باغات میں سے کافی پھل چوری ہوئے تھے۔ اس لیے ہم نے اس کی سیکیورٹی کے لیے تین لوکل اور چھ جرمن شیفرڈ کتے رکھ لیے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ تاحال ہم نے آموں کی فروخت شروع نہیں کی تاہم ایک خریدار نے ہمیں ایک آم کے 21 ہزار روپے دینے کی آفر کی ہے لیکن ابھی اسے فروخت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔یاد رہے کہ آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔

آج کل بادشاہ اور اس کی پاکستانی رعایا دونوں ہی خطرے میں ہیں۔ رعایا یعنی پاکستانی عوام کورونا وائرس کے سنگین خطرے سے دوچار ہیں جبکہ بادشاہ سلامت اس وائرس کو روکنے کے لیے ہونے والے حفاظتی اقدامات کی وجہ سے مشکل میں ہیں۔پاکستان میں آم کے باغات صوبہ سندھ اور پنجاب میں واقع ہیں اور دسمبر کی سردی جاتے ہی سال نو کے پہلے مہینے یعنی جنوری سے ہی ان آموں پر پھول مہکنا شروع ہو جاتے ہیں اور بعد میں یہ کیریوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

آموں کا موسم روزگار کے مواقع بھی لاتا ہے۔ مئی کے مہینے میں ان باغات میں میلے جیسا سماں بندھ جاتا ہے۔ سندھ میں چونکہ آم کی فصل پہلے تیار ہوتی ہے اس لیے یہاں پہلے آم اتارے جاتے ہیں۔ اس کے لیے جنوبی پنجاب سے ہر سال ماہر مزدور اس موسم میں سندھ کا رخ کرتے ہیں۔کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کی وجہ سے اپریل کے مہینے میں ملک گیر لاک ڈاون اور پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کے باعث اس بار جنوبی پنجاب کے مزدوروں کی کم تعداد باغات میں پہنچ پائی ہے۔