ملک کے معروف اردو ادیب ،دانشور، نقاد اور شاعر جاذب قریشی کو عزیز آباد قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا
بدھ 23 جون 2021 00:12
(جاری ہے)
جاذب قریشی ایک سال سے مثانے کی بیماری میں مبتلا ہو کر گھر پر صاحب فراش تھے اور ایک ہفتے قبل ان کے گردے کا بھی آپریشن ہوا تھا جس کے بعد ان کی طبیعت سنبھل نہ پائی اور پیر 21 جون 2021 کی رات انہوں نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔
جاذب قریشی 3 اگست 1940 کو بھارت کے شہر لکھنو میں پیدا ہوئے تھے جہاں انہوں نے اپنا بچپن گزارا تھا۔ جب وہ چھ سال کے تھے تو ان کے والد کی وفات ہوگئی جس کے نتیجے میں وہ مالی مشکلات کے سبب مزید تعلیم حاصل نہیں کر سکے اور اپنی زندگی گزارنے اور خاندان کی کفالت کے لئے سخت محنت کی۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے 1950 میں لاہور آ گئے جہاں انہوں نے ایک پرنٹنگ پریس میں ملازمت اختیا کرلی۔ بر سر روزگار ہونے کے بعد وہ ایک بار حصول تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے اور شعربھی لکھنا شروع کر دیئے جو ان کے بچپن کا شوق تھا۔ لاہور میں وہ باقاعدہ ادبی محفلوں میں شرکت کرنے لگے اور مشاعروں میں اپنی شاعری بھی پڑھنا شروع کر دی۔ انہیں پہلی بار شاہی قلعہ میں منعقدہ اس مشاعرے میں اپنا کلام سنانے کا موقع ملا جس کی صدارت شہرہ آفاق اردو شاعر حضرت احسان دانش کر رہے تھے۔ وہ معروف شاعر شاکر دہلوی کے شاگرد تھے جو داغ دہلوی کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ جاذب قریشی 1962 میں مستقلا کراچی چلے آئے جہاں انہوں نے مختلف رسائل اور اخبارات میں کام کیا، وہ دس برس تک روزنامہ جنگ کے ادبی صفحے کے انچارج بھی رہے۔ کراچی آ کر انہوں نے اپنی تعلیم بھی مکمل کی اور جامعہ کراچی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد درس وتدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ انہوں نے ایک فیچر فلم پتھر کے صنمبھی بنائی جو عوامی توجہ حاصل نہ کر پائی اور ناکامی سے دو چار ہوئی ، فلم سازی میں انہیں شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ جاذب قریشی نے بہت سی نثری اور شعری کتابیں لکھی ہیں جن میں پہچان تخلیقی آواز، آنکھ اور چراغ، شاعری اور تہذیب،دوسرے کنارے تک کلیات شناسائی، شیشے کا درخت، نیند کا ریشم، آشوب جاں، اجلی آوازیں، شکستہ عکس، جھرنے، عقیدتیں، مجھے یاد ہے، نعت کے جدید رنگ، میری شاعری، میری مصوری قابل ذکر ہیں۔ اپنے ساٹھ سال فنی سفر میں جاذب قریشی نے دنیا کے کئی ممالک جا کر عالمی مشاعروں میں شرکت کرکے اردو زبان اور پاکستان کا نام روشن کیا۔ یوں تو ان کے شعر زبان زد عام ہوئے لیکن ان کا یہ شعر کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں، تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو اور صحرا میں کوئی سایہ دیوار تو دیکھو، اے ہم سفرو دھوپ کے اس پار تو دیکھو لوگوں کو آج بھی ازبر ہیں۔مزید قومی خبریں
-
قومی فضائی کمپنی کافیصل آباد سے غیر ملکی پروازوں کیساتھ ساتھ ڈومیسٹک پروازوں کا سلسلہ شروع کرنے کا بھی فیصلہ
-
ٹ*وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیر صدارت اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس
-
شہباز شریف کے جعلی فارم 47 حکومت کا خیبر پختونخوا سے تعصب انتہا کو پہنچ گیا ہے،بیرسٹرسیف
-
5 سالہ بچی سے زیادتی کا ملزم ورچوئل ویمن پولیس اسٹیشن کی مدد سے گرفتار
-
مریم نواز کی حلقہ پی پی 159سے بطور ایم پی اے کامیابی کا نوٹیفکیشن چیلنج
-
ساری رات نیند نہیں آئی، یاسمین راشد نے سروسز ہسپتال لاہور کو جیل سے بدتر قرار دے دیا
-
وزیرداخلہ محسن نقوی نے پاسپورٹ پرشادی شدہ خاتون کے والد یا شوہر کے نام کے اندراج معاملے پرکمیٹی تشکیل دیدی
-
عید الضحی کے موقع پرشہری علاقوں کے قریب مویشی منڈیوں کے 5 عارضی سیل پوائنٹس قائم کیے جائیں گے، کمشنرساہیوال
-
قائمقام صدرمملکت سید یوسف رضا گیلانی کراچی کا سرکاری دورہ مکمل ،ملتان روانہ ہو گئے
-
غیرمعیاری ایل پی جی سلنڈروں کی خرید وفروخت پرپابندی عائد
-
چیئرمین وزیراعظم یوتھ پروگرام رانا مشہود احمد خان کا ڈھاکہ میں ایرانی سفارت خانے کا دورہ، ایرانی سفیر سے تعزیت کا اظہار
-
پی آئی اے کی پرواز 171 طلبا کو لے کر کرغزستان سے کراچی پہنچ گئی
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.