اسرائیل اور مراکش: تعلقات کے قیام کے بعد پروازیں بھی شروع

DW ڈی ڈبلیو اتوار 25 جولائی 2021 18:00

اسرائیل اور مراکش:  تعلقات کے قیام کے بعد پروازیں بھی شروع

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جولائی 2021ء) اسرائیل کی دو ایئر لائنز نے اتوار پچیس جولائی سے مراکش کے لیے براہ راست پروازیں شروع کر دیں۔ تقریباً ایک سو اسرائیلی سیاحوں کو لے کر 'اسر ایئر‘ کی ایک پرواز تل ابیب سے مراکش کے لیے روانہ ہوئی۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد اسرائیل کی قومی فضائی کمپنی ایل آل کی ایک مسافر پرواز بھی شہر مراکش کی طرف روانہ ہو گئی۔

'اسر ایئر‘ کی پرواز کے لیے جہاز کے عملے نے روایتی مراکشی لباس پہن رکھے تھے جبکہ پرواز کے دوران کھانا بھی مراکشی ہی پیش کیا گیا۔

اسرائیل سے تعلقات کی بحالی ’بے پناہ فائدہ مند‘ ہے، پرنس فیصل

امریکی اسرائیلی وفد مراکش کے تاریخی دورے پر

اسرائیل اور مراکش کے درمیان براہ راست پروازوں کا جلد آغاز ہوگا، اسرائیلی میڈیا

اسرائیلی وزیر سیاحت کے بقول اس پیش رفت سے سیاحت، تجارت، اقتصادی سرگرمیوں اور سفارت کاری کو فروغ ملے گا۔

(جاری ہے)

دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات گزشتہ برس کے اواخر میں قائم ہوئے تھے۔ رواں سال مارچ میں مراکش کے وزیر سیاحت نے کہا تھا کہ براہ راست فضائی رابطے قائم ہونے کے بعد ان کا ملک پہلے سال کے دوران دو لاکھ تک اسرائیلی سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کی توقع کرتا ہے۔

ایل آل کی جانب سے مراکش شہر کے لیے اس کی اولین پرواز سے قبل ایک بیان بھی جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ ہر ہفتے اس ایئر لائن کی تل ابیب سے مراکش کے لیے پانچ پروازیں اڑا کریں گی۔

کمپنی کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر ایویگیل سورک نے کہا، ''ہم امید کرتے ہیں کہ بہت سے لوگ اب مراکش کو بہتر طریقے سے جان پائیں گے تاکہ اس خاص ملک کے بارے میں آگہی حاصل ہو سکے، جو اسرائیلی تاریخ اور ثقافت کا حصہ ہے۔‘‘

'اسر ایئر‘ اس روٹ پر ہر ہفتے دو مرتبہ پرواز کیا کرے گی۔ امکان ہے کہ آئندہ چند ہفتوں کے دوران ایک اور اسرائیلی اور ایک مراکشی ایئر لائن بھی تل ابیب اور مراکش کے مابین پروازیں شروع کر دیں گی۔

مراکش کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے کیا ملا؟

امریکی ثالثی میں 'ابراہیمی معاہدوں‘ کے تحت جن چار عرب ریاستوں نے اسرائیل کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے، ان میں مراکش بھی شامل ہے۔ مراکش نے سن 2020 کے اواخر میں یہ قدم اٹھایا تھا۔ مراکش سے قبل متحدہ عرب امارات، سوڈان اور بحرین نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا۔

اس ڈیل کے تحت امریکا نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں مغربی صحارا کے خطے میں مراکش کے ملکیت کے دعوے کو تسلیم کر لیا تھا۔ اب لیکن موجودہ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ یہ کہہ چکی ہے کہ اس فیصلے کا از سر نو جائزہ لیا جائے گا۔ مراکش نے سن 1975 میں مغربی صحارا کے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا، جسے اقوام متحدہ نے اب تک تسلیم نہیں کیا۔

اسرائیل میں آباد کئی یہودیوں کے اجداد مراکشی تھے جبکہ مراکش میں آج بھی یہودی برادری ایک اقلیت کے طور پر آباد ہے۔ مراکش میں اس وقت یہودیوں کی تعداد لگ بھگ تین ہزار ہے۔

ع س / م م (اے پی، روئٹرز)