دس برس سے پاکستان کی دوغلی پالیسی پر تنقید کر رہا ہوں، کینیڈین سفارتکار

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 5 اگست 2021 15:40

دس برس سے پاکستان کی دوغلی پالیسی پر تنقید کر رہا ہوں، کینیڈین سفارتکار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 اگست 2021ء) افغانستان میں طالبان کی بڑھتی جارحیت کی وجہ سے جہاں اس جنگ زدہ ملک میں امن عمل کی افادیت اور امریکی ترجیحات کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں، وہیں پاکستان پر طالبان کی سرپرستی جاری رکھنے کے دعووں نے بھی زور پکڑا ہے۔

ایک جانب اعلیٰ افغان حکومتی عہدیدار مسلسل پاکستان پر دوغلی پالیسی اور درپردہ طالبان کی حمایت جاری رکھنے کا الزام عائد کر رہے ہیں تو دوسری جانب بعض غیر ملکی مبصرین نے بھی اسلام آباد پر طالبان کی پشت پناہی کے دعوے کی تائید کی ہے۔

اس کی ایک مثال سابق کینیڈین سفارت کار کرس الیگزانڈر ہیں جو سال 2003ء سے 2005ء تک افغانستان میں کینیڈا کے سفیر کے طور پر تعینات رہنے کے فوری بعد افغانستان ہی میں اقوام متحدہ کے معاون مشن کے نائب خصوصی نمائندے کے طور پر 2009ء تک فرائض نبھاتے رہے۔

(جاری ہے)

کرس الیگزانڈر گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل ٹوئیٹر پر پاکستان پر افغانستان میں امن عمل کو سبوتاج کرنے سمیت طالبان کی فوجی اور مالی معاونت کرنے جیسے الزامات پر مبنی ٹوئیٹس کر رہے ہیں۔

چند روز پہلے سابق کینیڈین سفارت کار کی جانب سے ایک تصویرٹویٹ کی گئی جس میں درجنوں جنگجوؤں کو جنگلے کے پار بیٹھا دیکھا جا سکتا ہے۔

کرس کی ٹویٹ میں کہا گیا کہ یہ تصویر ان طالبان جنگجوؤں کی ہے جو پاکستان سے افغانستان سرحد پار کرنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ اگر اب بھی کوئی اس بات سے انکار کرتا ہے کہ پاکستان افغانستان کے خلاف 'جارحیت کے عمل‘ میں مصروف نہیں ہے تو وہ اس پراکسی جنگ اور جنگی جرائم میں ملوث ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے بیان جاری کرتے ہوئے سخت الفاظ میں سابق سفارت کار کرس الیگزانڈر کے اس دعوے کو مسترد کیا اور کینیڈین حکام کے ساتھ اس معاملے کو اٹھانے کا عزم بھی کیا۔

کرس الیگزانڈر کینیڈا کے وزیر برائے شہریت اور امیگریشن بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے اور پاکستان کے دفترِ خارجہ کے درمیان لفظی ٹکراؤ کی صورتحال ایسے وقت سامنے آئی جب پاکستان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف اور ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید امریکی دورے پر واشنگٹن میں موجود ہیں۔

بدھ چار اگست کو واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں امریکی صحافیوں کو اپنے اس دورے سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر معید یوسف کا کہنا تھا کہ امن کے لیے تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان پر افغان دھڑوں کی جانب سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے ۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ پاکستان کے بارے میں ایک منفی تاثر بہرحال موجود ہے جس کی تاریخی وجوہات ہیں۔

ڈی ڈبلیو نے جب سابق کینیڈین سفارت کار کرس الیگزانڈر سے ان کی ٹوئیٹ کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ 10 سال سے بھی زیادہ عرصے سے پاکستان کی 'دوغلی افغان پالیسی‘ پر تنقید کر رہے۔

کرس کے بقول اس بار پاکستان کے دفتر خارجہ نے ان کی ٹوئیٹ پر ردعمل اس لیے دیا کیونکہ طالبان جنگجوؤں کی تصویر جو انہوں نے شیئر کی تھی وہ حقیقت پر مبنی تھی۔

سابق سفارتکار کے مطابق یہ طالبان جنگجو تھے جو پاکستانی علاقے کُرم ایجنسی سے سرحد پار پکتیا صوبے میں جا رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو تاہم اس دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کرسکا۔

کرس الیگزانڈر کا مزید کہنا تھا کہ واشنگٹن میں پاکستانی وفد اس ہفتے دوحہ میں طالبان رہنماؤں پر مراعات دینے کے لیے دباؤ ڈالنے کے وعدے پر توجہ مرکوز کرے گا: ''طالبان کے حالیہ حملوں کے پیش نظر امریکی ہم منصب شکوک و شبہات کا شکار ہوں گے جس کا مطلب ہے کہ امن عمل اپنے آخری قدموں پر ہے۔

‘‘

سابق سفارت کار کے مطابقامریکی انتظامیہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ وہ پاکستان کے ساتھ کیسے روابط رکھنا چاہتی ہے: ''فی الحال پاک امریکا تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے وزیراعظم عمران خان کو فون تک نہیں کیا۔‘‘