جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین بل منظور کرایا گیا ،وزیراعلیٰ سندھ

کچھ ناسمجھ اور کم عقل لوگ جن کی کچھ تعداد سندھ اور وفاق میں ہے غلط بیانی کرتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ وفاق کے افسران کو سندھ حکومت کام کرنے سے روکتی ہے،مراد علی شاہ قانون کے مطابق یہ افسران وزیر اعظم اور وزیر اعلی کی مشاورت سے آنے چاہیے لیکن وزیر اعظم نے مجھ سے مشاورت نہیں کی،کابینہ اجلا س کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب

جمعرات 18 نومبر 2021 18:47

جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے لیے الیکٹرانک ووٹنگ مشین بل منظور کرایا ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 نومبر2021ء) وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہ وفاقی حکومت نے ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم)سے متعلق بل منظور کرایا۔سندھ کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اعلی سندھ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک قانون منظور کروایا گیا جس کے تحت دھاندلی کی جائے گی، قومی اسمبلی موجود الیکٹرانک ووٹنگ مشینز خراب ہیں اور ملک میں انتخابات کے لیے ای وی ایمز کا بل منظور کیا گیا۔

انہوں نے کہا انہیں یہ ہی نہیں معلوم کہ ان کے اسمبلی میں کتنے اراکین موجود ہیں، یہ بل اس ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے لیے منظور کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ اگر آئندہ انتخابات میں ای وی ایم کا استعمال ہوتا ہے تو انہوں نے جن نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے وہ بھی نہیں ملیں گی۔افسران کے تبادلے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ کچھ ناسمجھ اور کم عقل لوگ جن کی کچھ تعداد سندھ اور وفاق میں ہے غلط بیانی کرتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ وفاق کے افسران کو سندھ حکومت کام کرنے سے روکتی ہے میں واضح طور پر کہہ رہا ہوں کہ یہ وفاق کے افسران نہیں ہیں۔

وزیر اعلی نے کہا کہ 1954 میں سول سروس آف پاکستان کیپٹل کارڈر رولز بنے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ یہ وفاق کے نہیں فیڈریشن کے افسران ہیں فیڈریشن میں چاروں صوبے آتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہمیں کچھ دنوں پہلے کچھ نوٹیفیکیشن ملے تھے، انہوں نے ایڈمسنٹریٹر سروس کے افسران کو ایک صوبے سے نکال کر ہمارے پاس بھیجا، ہم نے ان پر قانون کے مطابق تبادلہ خیال کیا، قانون کے مطابق ایڈمنسٹریٹر سروس میں 60 فیصد افسران فیڈیشن کے ہوں گے اور 40 فیصد سندھ کے ہوں گیانہوں نے کہا کہ ہمارے پاس سندھ کے 19 افسران ہیں جب ہم نے وفاق کو کہا تو انہوں نے کہا کہ تمام صوبوں میں یہ حال ہے، کچھ روز قبل جب چیف جسٹس پاکستان نے مجھے عدالت میں بلایا تو میں نے انہیں آگاہ جس پر انہوں نے مجھے اٹارنی جنرل کو خط لکھنے کی ہدایت کی، جس پر وفاق نے پی ایس کے 7 اور پی ایس پی کے 8 افسران بھیجے۔

انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق یہ افسران وزیر اعظم اور وزیر اعلی کی مشاورت سے آنے چاہیے لیکن وزیر اعظم نے مجھ سے مشاورت نہیں کی۔مراد علی شاہ نے آگاہ کیا کہ کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ جو چار افسران آپ نے سندھ سے بلوانے کی بات کی ہے وہ تجویز کابینہ مسترد کرتی ہے اور آپ کی طرف سے بھیجے جانے والے چار افسران کو کابینہ قبول کرتی ہے اور مزید افسران کو بھیجا جائے۔

وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ میں وفاقی حکومت کو خبردار کرتا ہوں کہ آپ کا جھگڑا میرے ساتھ ہے افسران کو تنگ نہ کریں، اگر آپ لڑنا ہے تو سندھ کابینہ سے لڑیں آپ افسران کو تنگ کرتے ہیں تو ہماری کارکردگی متاثر ہوتی ہے، ہم یہ اجازت آپ کو کبھی نہیں دیں۔وزیر اعلی نے وفاقی حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ ہم میرٹ پر کام کرتے ہیں ہم نے آپ کا میرٹ دیکھ لیا، آپ لوگ سندھ کی گورننس خراب کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ دوسری اہم بات مردم شماری ہے، جس پر ہمارے تحفظات ہیں، انہوں نے گھر شماری کی جس میں انہوں نے کہا کہ کے پی کے میں 38 لاکھ سے زائد، پنچاب میں ایک کروڑ سے زائد، اور بلوچستان میں 75 ہزار سے زائد اور سندھ میں 85 لاکھ 85 ہزار سے زائد گھرانے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب مردم شماری کی گئی توسندھ میں فی گھر میں افراد کی تعداد کم کردی گئی، ہماری مجموعی آبادی 6 کروڑ سے زائد ہے آپ نے 4 کروڑ 80 لاکھ سیبھی کم کردی ہے، یہ ایک اہم وجہ ہے سوال اٹھانے گی۔

انہوں نے کہاکہ اس پر وفاقی حکومت کی جانب سے ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس سے کہا گیا تھا کہ صوبوں سے مشاورت کرے لیکن ہم نے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ میں نے وزیر اعظم کو 15 اکتوبر کو خط لکھا تھا جس میں بجلی کے پلانٹس کے حوالے سے بات کی تھی، وفاق نے منصوبوں سے سندھ حکومت کے سستی بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ نکال کر اپنے مہنگی بجلی کے پلانٹ شامل کر دیے ہیں جس کے حوالے سینیپرا نے خود لکھا ہے کہ یہ پلانٹ سستی بجلی کے منصوبے پر پورے نہیں اترتے، مجھے اس خط کا جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

سندھ کابینہ کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ کابینہ نے گندم کی قیمت 2 ہزار 200 روپے فی من مقرر کی ہے،جبکہ فریٹالئزر اور ادویات میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں 50 فیصد پیداوار کا مستحق کسان ہوتا ہے اور یہ قیمت اس کے لئے مقرر گئی ہے تاکہ کسان فائدہ اٹھا سکیں۔وزیر اعلی نے کہاکہ پچھلی بار 2ہزار روپے قیمت رکھی تھی اس کی بوری کی قیمت 5 ہزار بن رہی تھی جس پر وفاقی حکومت نے بہت تنقید کی تھی، بعدازاں انہوں نے خود بھی گندم کی قیمت میں اضافہ کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت ملک کے کسانوں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے یوکرین اور دیگر ممالک کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔مراد علی شاہ نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے ایک فرٹیلائزر میں سبسڈی کی اسکیم ہے اس کے جواب میں ہم نے فیڈرل حکومت کو لکھا ہے کہ ہم اس میں شرکت کر رہے ہیں۔اجلاس میں ہونے والے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میر پور خاص میں سرکٹ بینج قائم کرنے کی سفارش کی ہے جس پر سندھ ہائیکورٹ کے جج صاحب گورنر سندھ سے مشاورت کریں گے۔

آبپاشی کی زمینوں کے حوالے سے اجلاس میں مشاورت ہوئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ وہ زمینیں جو محکمہ آبپاشی کے پاس ہیں اور انہیں اس کی ضرورت نہیں ہے وہ زمینیں کچی آبادی کے لیے الاٹ کردی گئی ہیں۔اجلاس کے دوران سندھ کابینہ نے الیکٹرک گاڑیوں کی رجسٹریشن کرنے کی اجازت دے دی جبکہ وزیراعلی سندھ نے اپلائیڈ فار رجسٹریشن(اے ایف آر)کی نمبر پلیٹس ختم کرنے کی ہدایت دی ہے۔

سندھ کابینہ کے اجلاس میں وزیراعلی سندھ کے مشیر برائے زراعت منظور وسان کی وزیراعلی سندھ کو اپنے محکمے کی ترقیاتی کاموں پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ محکمہ زراعت کا کل 5 بلین روپے کی 43 اسکیمیں ہیں حکومت نے 900 ملین روپے جاری کیے ہیں جس میں 565.5 ملین روپے خرچ ہوچکے ہیں۔اجلاس کے دوران رائس کینال لاڑکانہ کی کچی آبادیوں کا مسئلہ زیر بحث آیاجس میں سندھ کچی آبادی اتھارٹی نے محکمہ آبپاشی کو درخواست کی کہ آبپاشی کی زمین ان کو دی جائے تاکہ ان کو ریگیولر کیا جاسکے کابینہ نے اس اراضی کا سروے کر کے سروے نمبر الاٹ کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے آبپاشی کی زمینیں کچی آبادی کے لیے مقرر کردی گئیں۔

کابینہ نے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس اور پولیس افسران کی روٹیشن پالیسی پر تبادلہ خیال کیا جس پر کابینہ نے سندھ پولیس سروس کا کیڈر بنانے کا بھی فیصلہ کیاربیع میں کھاد پر سبسڈی کے حوالے سے بھی کابینہ کے اجلاس میں بات کی گئی بریفنگ میں کہا گیا کہ سبسڈی میں وفاقی حکومت ایک ارب 65 کروڑ روپے اور سندھ حکومت بھی اتنی ہی رقم ادا کرے گی سندھ کابینہ نے پیکج کی منظوری دے دی۔کابینہ نے سندھ کابینہ نے الیکٹرک گاڑیاں رجسٹریشن کرنے کی اجازت بھی دے دی۔