تھر قحط یا بیابان نہیں بلکہ وسائل سے مالامال خطہ ہے،زرعی ماہرین

تھر میں زراعت اور زندگی پر کوئی تحقیق نہیںہوئی،تھر پوری دنیا میں ثقافت کے ذریعے پاکستان کی پہچان بنا ہوا ہے، سندھ حکومت تھر کی ترقی کیلئے زرعی گھریلو صنعت اور تھر کی ترقی کے لئے سرمایہ کاری کرے،ڈاکٹرفتح محمدمری

جمعہ 19 نومبر 2021 00:06

حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 نومبر2021ء) سندھ کے زرعی ماہرین، سائنسدانوں اور سماجی رہنمائوں نے کہا ہے کہ تھر قحط یا بیابان نہیں بلکہ وسائل سے مالامال خطہ ہے، تھر میں زراعت اور زندگی پر کوئی تحقیق نہیںہوئی،تھر پوری دنیا میں ثقافت کے ذریعے پاکستان کی پہچان بنا ہوا ہے، سندھ حکومت تھر کی ترقی کیلئے زرعی گھریلو صنعت اور تھر کی ترقی کے لئے سرمایہ کاری کرے۔

سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام میںتھر اسٹوڈنٹس کونسل اور اسٹوڈنٹ ٹیچرز انگیجمنٹ پروگرام کے زیراہتمام پہلے تھر فیسٹول کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کی۔یونیورسٹی کے مین آڈیٹوریم ہال میں منعقدہ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا کہ تھر کو ترقی دینے کیلئے وہاں کی زراعت میں جدت لانی پڑے گی، اور زراعت اور لائیو اسٹاک میں نئے منصوبے تجویز دینے پڑیں گے، انہوں نے کہا کہ بارانی علاقوں میں زراعت کے بہت بڑے مواقع موجود ہیں، اس لییتھر میں زرعییونیورسٹی کا سب کیمپس قائم کیا گیا ہے، ہم تھر کے نوجوانوں کے ساتھ مل کر تھر میں پیدا ہونے والی زرعی اور لائیو اسٹاک کی مصنوعات کوملک کی بڑی منڈیوں تک دیکھنا چاہیں گے، شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی آف آرٹ ڈیزائن اینڈ ہیریٹیج کے وائس چانسلر ڈاکٹر بھائی خان شر نے کہا کہ دنیا کے نظریات بدل چکے ہیں، پاکستان کے پاس دنیا میں ایکسپورٹ کرنے کیلئے جدیدآلاتیاترقی یافتہ ممالک سے زیادہ بڑی ٹیکنالوجی نہیں ہے،لیکن پاکستان کی زرعی مصنوعات اور دستکاریکو دنیاکے مختلف ممالک میں ایکسپورٹ کیا جا سکتا ہے اور سیاحت میں سرمایہ کاری ملکی ترقی میں کردار ادا کر سکتی ہے، انہوں نے کہا کہ تھر کو صرف غربت اور ریگستانکی نظر سیدیکھنا نہیں چاہیے بلکہ اس کے برعکستھر وسائل سے مالامال ہے، جسے پرکھنے کی ضرورت ہے،انہوں نے کہا تھر میں زرعی تحقیق کی اشد ضرورت ہے، اب بھی تھر میںایسے پودے اور جیوت موجود ہے، جن کے ابھی نام بھی طے نہ ہو سکے ہیں، اس کے لیے سندھ زرعییونیورسٹی اور دیگر اداروں سے تحقیقات کرائی جائیں اور حکومت سندھ کو اس میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔

(جاری ہے)

شھید بینظیر بھٹو وٹرنری یونیورسٹی سکرنڈ کے سابق وائیس چانسلر اور نامور وٹرینری ماہر ڈاکٹر جے مل دھنانی نے کہا کہ تھر کی زندگی اور کاروبار میں لائیو سٹاک اور زراعت کی بہت اہمیت ہے، تھر سے لاتعلقی کا سلوکختم کرنا چاھئے، وہاں کے نوجوانوں کو تعلیم، اسکالرشپ، لائیو سٹاک اور زرعی وسائل پر تحقیق میںمشغول کرنے کیلئے ادارے اور حکومت سنجیدگی اختیار کریں،معروف سماجی رہنما اور سندھ رورل پارٹنر آرگنائزیشن کی سربراہ زاہدہ ڈیتھو نے کہا کہ تھرکی عورت دنیا کی بہادر ترین عورت ہے، وہ بہت تکالیف کا سامنہ کرتی ہیں، ساتھ ساتھتھری خواتین قالینسازی، زراعت اور مویشی پالنے اور دستکاری کے ذریعے اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہیں، اس لیے وہاں کی لڑکیوں کو تعلیم اور تحقیق کی طرف آنا چاہیے تاکہ عورت کا بوجھ کم ہو سکے۔

پروفیسر محمد اسماعیلکمبھر نے کہا کہ سندھ زرعییونیورسٹی نے تدریس و تحقیق کے ساتھ ایک نئیروایات کا بنیاد ڈالا ہے، انہوں نے تھر فیسٹیولنہ صرف طلبا کے لیے ایک تفریحی پروگرام ہے بلکہ اس کے ذریعے موجود مسائل اور مواقع کو اجاگر کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل ایگریکلچر ریسرچ سندھ نور محمد سومرو، سماجی رہنما ماروی اعوان، ڈینز ڈاکٹر قمرالدین چاچڑ، ڈاکٹر اعجاز علی کھوہارو، ڈاکٹر سید غیاث الدین شاہ راشدی، ڈاکٹر نعمت اللہ لغاری، ڈاکٹر جان محمد مری، ڈاکٹر عبداللہ آریجو، ڈاکٹر عبدالواحد بلوچ، ڈاکٹر الطاف سیال، ڈاکٹر سید ضیا الحسن شاہ اور دیگر موجود تھے،دوسری جانب تھر فیسٹیول کے دوران تھری لباس، تھری سبزیوں اور پھلوں، کاشت اور تھری موروثی گھریلوسامان کی نمائش اور اسٹالز بھی لگائے گئے تھے، جس کا افتتاح کیا گیا، پروگرام میں آرتی،تھری موسیقی، علامتی شادیرسومات، رقص اور ٹیبلوز بھی پیش کیے گئے، جبکہ شنکر سنگھ سوڈھو، سریش کمار، احمد علی راہمون، نند لال بھیل، پارومل مہارانی، بلاول بانبھن، ثمن دیوی،کائنات ہالیپوٹو، سورٹھ اور دیگر نے تقریب میں شرکت کی۔