مری کی خراب صورتحال کے بارے میں وزیراعظم آفس سمیت متعلقہ اداروں کو 2 روزقبل ہی الرٹ کردیا تھا.محکمہ موسمیات کا انکشاف

شدید برفباری اورسڑکوں کی بندش سے متعلق وزیراعظم آفس اوراین ڈی ایم اے کو پیشگی قبل اطلاع دی گئی 5 جنوری کو ایڈوائزری جاری کی، واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ شدید برفباری کے باعث سڑکیں بند ہو سکتی ہیں. سانحہ مری پر محکمہ موسمیات نے رپورٹ جمع کروادی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 20 جنوری 2022 16:37

مری کی خراب صورتحال کے بارے میں وزیراعظم آفس سمیت متعلقہ اداروں کو ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 جنوری ۔2022 ) محکمہ موسمیات نے سانحہ مری پر اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مری کی خراب صورتحال سے متعلق وزیراعظم آفس سمیت متعلقہ اداروں کو 2 روزقبل ہی الرٹ کیا گیا تھا. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مری میں شدید برفباری اورسڑکوں کی بندش سے متعلق وزیراعظم آفس اوراین ڈی ایم اے کو پیشگی قبل اطلاع دی گئی 5 جنوری کو ایڈوائزری جاری کی، واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ شدید برفباری کے باعث سڑکیں بند ہو سکتی ہیں.

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق بروقت اطلاع دے کربتایا گیا تھا کہ مری، نتھیا گلی، کاغان، گلیات سمیت مختلف علاقوں میں شدید برفباری ہوگی، موسم سے متعلق ایوی ایشن ڈویز، پی ڈی ایم اے، ایس ڈی ایم اے، وزارت موسمیاتی تبدیلی کو آگاہ کیا گیا تھا. وزارت آبی وسائل، وزارت فوڈ سکیورٹی، ارسا، چیئرمین ایف ایف سی اور محکمہ موسمیات کے ریجنل دفاتر کو بھی اطلاع دی گئی، مری میں 7 اور 8 جنوری کے درمیان 16.5 انچ برفباری ریکارڈ کی گئی.

واضح رہے کہ مری میں شدید برف باری کے باعث ہزاروں افراد سڑکوں پر پھنس گئے تھے اور شدید سردی اور دم گھٹنے سے ایک خاندان کے 8 اور دوسرے خاندان کے 5 افراد سمیت 22 سیاح جاں بحق ہوگئے تھے. یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب نے سانحہ مری کی رپورٹ آنے پر کمشنر، ڈپٹی کمشنر، سی پی او سمیت 15 اعلیٰ افسران کو عہدوں سے ہٹانے کا اعلان کیا تھالاہور میں پریس کانفرنس کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ سانحہ مری کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں غفلت و کوتاہی کی نشاندہی کی ہے،کمیٹی کی سفارشات پر 15 افسران کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے.

سرکاری اہلکاروں کے خلاف کیا کاروائی کی جائے گی اس کے بارے میں وزیراعلی پنجاب نے صرف ڈپٹی کمشنر کے انضباطی کارروائی کا عندیہ دیا تاہم شہریوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ کاروائی صرف عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے ہے کیونکہ پاکستان میں معمولی سرکاری اہلکار معطلی کو سزا نہیں سمجھتے بلکہ اسے تنخواہ کے ساتھ رخصت تصور کیا جاتا ہے تو اعلی سول افسران کے لیے معطلی کیا معنی رکھتی ہوگی .

دوسری جانب قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سی ایس ایس افسران کے خلاف وزیراعلی کاروائی کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتے صوبائی حکومت فیڈرل سروس کے ملازمین کو واپس وفاق میں بجھواسکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ ان کے خلاف کاروائی کی سفارش کرسکتی ہے جس پر گریڈکے لحاظ سے صدر‘وزیراعظم یا وفاقی حکومت کے متعلقہ محکمے ہی کاروائی کرسکتے ہیں انہوں نے وزیراعلی کی جانب سے افسران کے خلاف کاروائی کے اعلان کو محض کاغذی کاروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلی پنجاب صرف پنجاب حکومت کے ماتحت ملازمین کے خلاف کاروائی کا اختیار رکھتے ہیں.

انہوں نے کہا کہ کمشنر‘ڈپٹی کمشنر‘اسسٹنٹ کمشنراور دیگر اعلی پولیس افسران سی ایس ایس افسرہیں لہذا وہ وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں ان کے خلاف کاروائی کی بات محض سیاسی پوائنٹ اسکورننگ ہے.