روس نے یوکرائن میں حکومت بدلنے کا برطانوی الزام مسترد کر دیا

DW ڈی ڈبلیو اتوار 23 جنوری 2022 14:40

روس نے یوکرائن میں حکومت بدلنے کا برطانوی الزام مسترد کر دیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جنوری 2022ء) برطانیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ روس یوکرائنی حکومت کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کریملن کی کوشش ہے کہ اس سابق سوویت ریاست میں ایک ایسی کٹھ پتلی حکومت قائم کر دی جائے، جو ماسکو کی حامی ہو۔

برطانیہ کی طرف سے یہ الزام ایک ایسے وقت میں لگایا گیا ہے، جب ایسے خدشات سنگین ہوتے جا رہے ہیں کہ روس یوکرائن پر ایک نیا حملہ کر سکتا ہے۔

روس نے یوکرائن سے متصل سرحدوں پر ہزاروں فوجیوں کے علاوہ بھاری اسلحہ اور ٹینک تعینات کیے ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے نہ صرف یوکرائن بلکہ یورپ اور امریکا بھی روس کو خبردار کر چکے ہیں کہ کسی بھی عسکری کارروائی کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

تاہم روس کا کہنا ہے کہ اس کا یوکرائن پر کسی نئے حملے کا کوئی ارادہ نہیں بلکہ وہ یورپ کی مشرقی سرحدوں پر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی عسکری سرگرمیاں نہیں چاہتا۔

(جاری ہے)

روس نے اس حوالے سے امریکا اور یورپ سے ضمانتیں مانگی ہیں، جس پر مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔

الزام ہے کیا؟

لندن حکومت کا کہنا ہے کہ اسے ایسے شواہد ملے ہیں کہ یوکرائن کے متعدد سیاستدانوں نے روسی خفیہ ایجنسیوں سے رابطے استوار کیے ہیں تاکہ انہیں نئے یوکرائنی رہنما کے طور پر منتخب کر لیا جائے۔

اطلاعات ہیں کہ روسی خفیہ ایجنسیان سابق ممبر پارلیمان یگفین مورایئف کو نئے لیڈر کے طور پر پرکھ رہی ہیں۔

تاہم برطانوی حکومت نے اس دعوؤں کے حوالے سے زیادہ تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔

برطانوی وزارت خارجہ نے بتایا ہے کہ ایسے سابق یوکرائنی رہنما روس کے ساتھ مل کر یوکرائن پر ممکنہ حملے کی منصوبہ بندی میں بھی شامل ہیں۔

امریکا نے اس برطانوی انٹیلی جنس رپورٹ کو انتہائی تشویش کا باعث قرار دیا ہے۔ تاہم روس نے ان برطانوی الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔

روسی وزارت خارجہ نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ برطانوی وزارت خارجہ ایک مرتبہ پھر غلط معلومات پھیلا رہی ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو یوکرائن کے معاملے پر تناؤ بڑھا رہی ہے۔

برطانیہ کی طرف سے یہ نئے الزامات ایک ایسے وقت میں عائد کیے گئے ہیں، جب امریکی اور روسی وزرائے خارجہ کے مابین جنیوا میں ہوئی ایک ملاقات میں اتفاق کیا گیا ہے کہ دونوں ممالک اس کشیدگی کو کم کرنے کی خاطر مذاکراتی عمل جاری رکھیں گے۔

یوکرائن کے روس نواز رہنما

سن 2019 کے الیکشن میں مورایئف اپنی نشست ہار گئے تھے ان کی پارٹی پارلیمان میں مطلوبہ پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔ یوکرائنی پارلیمان میں نمائندگی کی خاطر کسی بھی پارٹی کو کم ازکم پانچ فیصد عوامی حمایت درکار ہوتی ہے۔

مورایئف یوکرائن کے ایک ٹی وی نیٹ ورک کے مالک ہیں۔ کییف حکومت کا الزام ہے کہ وہ اپنے اس چینل سے روسی پراپیگنڈے کو فروغ دے رہے ہیں اور اس چینل کو بند کرنے کی خاطر گزشتہ برس سے قانونی کارروائی جاری ہے۔

جرمن بحیرہ کے سربراہ متنازعہ بیان کے بعد مستعفی

دوسری طرف جرمن بحریہ کے سربراہ نے یوکرائن اور روس سے متعلق اپنے بیان پر شدید تنقید کے بعد ہفتے کی شام استعفیٰ دے دیا۔ بھارت میں جمعے کو ایک تقریب سے خطاب میں وائس ایڈمرل کے آخِم شؤن باخ نے کہا تھا کہ یوکرائن جزیرہ نما کریمیا دوبارہ واپس نہیں لے سکے گا۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ روسی صدر 'قابل عزت‘ ہیں اور چین کے مقابلے میں روس کو اپنی طرف رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس خطاب پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے کییف حکومت نے جرمن سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا تھا۔ جرمن نیوی کے مطابق وزیردفاع کرسٹینا لمبریشٹ نے شؤن باخ کا استعفیٰ قبول کر لیا ہے۔