چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس، کراچی یونیورسٹی میں دھماکے کی شدید مذمت، چینی شہری اور ایک پاکستانی کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار

جمعرات 28 اپریل 2022 22:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 28 اپریل2022ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ اجلاس کے آغاز میں کمیٹی نے کراچی یونیورسٹی میں دھماکے کی شدید مذمت کی اور چینی شہری اور ایک پاکستانی کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا۔کمیٹی نے چین سے اظہار یکجہتی اور واقعے کی مذمت کے حوالے سے قرارداد چینی سفارتخانے میں جمع کرانے کا فیصلہ کیا۔

چیئرمین کمیٹی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کا رجحان پھر سے بڑھ رہا ہے اور ملک کی بقا اسی میں ہے کہ دہشت گردی کی اس لہر کو روکا جائے۔اس حوالے سے فوری اور موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے-سینیٹردوست محمد خان نے شمالی وزیرستان میں لینڈ مائینزکی وجہ سے ہلاکتوں کا معاملہ اٹھایا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہر ہفتے لینڈ مائینز کی وجہ سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔

لینڈ مائینز کو ختم کیا جائے اور جو ہلاک ہوئے ہیں ان کے ورثا کو روزگار دے کر قومی دھارے میں لایا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو ماوضہ بھی کم دیا جاتا ہے جس کو مزید بڑھانا چاہئے۔سیکریٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ نے بتایا کہ پچھلے 5 سالوں میں لینڈ مائینز کے پھٹنے سے 25 ہلاکتیں جبکہ تقریبا 45 لوگ زخمی ہوئے ہیں، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو 3 لاکھ روپے جبکہ زخمی کو 1 لاکھ روپے بطور معاضہ دیا جاتا ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے معاوضے کی رقم کو دگنا کرنے کی تجویز دی اور کہا کہ اگر کوئی زخمی ہوا ہے تو علاج پر جتنا خرچ آتا ہے اس کے مطابق زخمی کو معاوضہ دیا جانا چاہئے۔انہوں نے ہلاک ہوجانے والوں کے ورثا کو نوکری دینے کی بھی تجزیز پیش کی۔معاوضہ دینے کے طریقہ کار اور ورثا کو ملنے کی مدت کے حوالے سے تفصیلات کمیٹی نے ہوم سیکریٹری خیبرپختونخوا سے طلب کرلیں۔

سینیٹر محسن عزیز کی جانب سے کمیٹی میں “دی پیمنٹ آف ویجز (ترمیمی) بل 2022 پیش کیا گیا۔بل پر بحث کے بعد کمیٹی نے متفقہ طور پر بل کو منظور کرلیا۔سینیٹر سیمی ازدی کی جانب سے بھی کمیٹی میں “دی پریونشن اینڈ ری ہیبیلیٹیشن آف ویگرینٹس بل 2022” پیش کیا گیا۔ کمیٹی اور وزارت داخلہ کے حکام نے بل کا شق وار جائزہ لیا۔ بل پر بحث کے بعد کچھ ترامیم کر کے بل کو کمیٹی نے منظور کرلیا-سینیٹر شہادت اعوان کی جانب سے بھی کمیٹی میں “دی پروونشل موٹر وہیکلز (ترمیمی) بل 2022” پیش کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ دوران سفرموبائل فون استعمال کرنے پرجرمانے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ وزارت قانون کے حکام نے بتایا کہ اس حوالے سے قانونی تیاری مکمل ہو چکی ہے اور کابینہ سے بھی منظوری ہو چکی ہے اب صرف وزارت داخلہ سے نوٹیفیکیشن ہونا باقی ہے۔ سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ اس حوالے سے مفصل رپورٹ کمیٹی کی اگلی میٹنگ میں پیش کردیں گے جس کے بعد چیئرمین کمیٹی نے بل پرمزید بحث کو اگلی میٹںگ تک موخر کردیا۔

دیر میں نادرا کے دفاتر اوراس میں خواتین کی بھرتیوں کا معاملہ سینیٹر مشتاق احمد نے کمیٹی میں اٹھایا۔ان کا کہنا تھا کہ دیر میں نادرا کے دفاتر میں خواتین کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ خواتین نا ہونے کی صورت میں وہاں کی خواتین شناختی کارڈ بنوانے کیلئے دفتر جانے سے کتراتی ہیں۔نادرا حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ لور دیر میں نادرا کی 2 جبکہ اپر دیر میں 1 موبائل وین کام کر رہے ہیں اس کے علاوہ 6 سنٹرز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔

مزید 2 سنٹرز کاجون جبکہ 1 سنٹر کا افتتاح جولائی میں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سنٹرز میں ایک خواتین کو لازمی رکھا جائے گا۔چیئرمین کمیٹی کی گزارش پر نادرا حکام نے اپر دیرمیں مزید ایک موبائل وین چلانے کا اعادہ کیا۔چیئرمین کمیٹی نے بہترکارکردگی پر نادرا کے کام کو سراہا۔سینیٹرفدا محمد خان نے سوال اٹھایا کہ ڈیپارٹمنٹ آف لائیبریریز کو ایچ نائن سیکٹر کیوں منتقل کیا گیا؟ ڈیپارٹمنٹ کا ڈی جی گزشتہ 6 سالوں سے تعینات نہیں کیا گیا اس کی وجوہات کیا ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جب ڈی جی ہی نہیں توکس کے حکم پر ڈیپارٹمنٹ کو منتقل کیا گیا۔

سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ ڈیپارٹمنٹ آف لائیبریریز پہلے کیڈ کے انڈراور پھر نیشنل ہیریٹیج کے انڈر بھی رہی ہے ابھی چیف کمشنرآفس کے زریعے وزارت داخلہ سے منسلک ہے۔سینیٹرفدامحمد نے کہا کہ ڈیپارٹمنٹ کو ایچ نائن منتقل کرنے سے وہاں کی لوگوں کی سینیارٹی اور پروموشن کے مسائل بنے ہوئے ہیں کچھ لوگوں کو فارغ بھی کردیا گیا ہے۔سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ پہلی بار کسی نے ہماری توجہ اس طرف دلائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے تفصیلات کمیٹی کے ساتھ اگلے اجلاس میں شئیرکرلیں گے. بلوچستان ،ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے بھی کمیٹی اجلاس میں شریک ہوئے اور اپنی برادری کو پاسپورٹ کے حصول میں درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں زیارت کیلئے سفر کرنا پڑتا ہے جس کیلئے ہمیں پاسپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بلوچستان میں پاسپورٹ کے حصول میں مہینوں لگ جاتے ہیں، ہمارے کیسز زیرالتوا پڑے رہتے ہیں، تصدیقی عمل تقریبا 5 ماہ تک چلتا رہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاسپورٹ کیلئے جن دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے ان کو یونین کونسل چیئرمین کے ساتھ ساتھ ایم پی اے اور ایم این اے سے بھی دستخط کرنا ہوتا ہے لیکن ہم میں سے ایم این اے منتخب نہیں ہوتے جس کی وجہ سے دستاویز دستخط کرانے میں مشکلات پیش آتی پیں۔گزارش کرتے ہیں کی ایم این اے سے دستخط کی شرط کو ختم کیا جائے۔ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن نے کہا کہ وہ خود اس معاملے کو دیکھیں گے اور جتنا ہو سکتا ہے ہزارہ برادری کو سہولت فراہم کریں گے۔

سیکریٹری داخلہ نے ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن کو ہزارہ کمیونیٹی کی سہولت کیلئے خصوصی ٹیم بلوچستان بھیجنے کا کہا-ان کا کہنا تھا کہ ایس او پیز کے مطابق دستاویز پر ایم این اے کے دستخط کے حوالے سے معاملے کو بھی دیکھا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ جو بھی ہو سکے گا اس معاملے میں ہم کریں گے۔ چیئرمین کمیٹی نے بھی ہزارہ کمیونٹی کو پاسپورٹ کے حصول میں سہولت مہیا کرنے کے حوالے سےخصوصی ٹیم بلوچستان بھیجنے، ایم این اے سے دستخط کی شرط کو ختم کرنے اور زیرالتوا کیسز کو جلد نمٹانے کی ہدایت کی۔

سینیٹرز اعظم نزیرتارڈ،مولا بخش چانڈیو، سیف اللہ ابڑو،شہادت اعوان، فوزیہ ارشد کے علاوہ سینیٹرز سیمی ازدی، مشتاق احمد خان، دوست محمدخان اور فدا محمد خان نے بطور موور اجلاس میں شرکت کی۔ سیکریٹری داخلہ، ڈی جی پاسپورٹ اینڈ امیگریشن، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد، ہوم سیکریٹری خیبرپختونخوا، وزارت قانون اور نادرا کے حکام بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔