پاکستان میں تمباکو کے استعمال میں 2025 تک30 فیصد کمی کا امکان ہے، ڈاکٹر ثمرہ

منگل 14 جون 2022 22:23

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 جون2022ء) ڈائریکٹر ٹوبیکو کنٹرول وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوآرڈینیشن ڈاکٹر ثمرہ مظہر نے کہا ہے کہ تمباکو نوشی کی وجہ سے یومیہ 438 پاکستانی ہلاک ہوتے ہیں جبکہ تمباکو کے استعمال کی وجہ سے روزانہ تقریباً 5 ہزار پاکستانی اسپتالوں میں داخل ہو رہے ہیں اور یہ بات تشویشناک ہے کہ ہرروز 6 سے 15 سال کی عمر کے 1200 پاکستانی بچے سگریٹ نوشی شروع کر دیتے ہیں جو کہ انتہائی تشویشناک ہے لہٰذا تمام سطحوں پر میگا آگاہی مہم شروع کرنے کے ساتھ اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔

یہ بات انہوں نے منگل کو کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر پریزنٹیشن دیتے ہوئے کہی۔اس موقع پر کے سی سی آئی کے صدر محمد ادریس، نائب صدر قاضی زاہد حسین، چیئرمین ہیلتھ اینڈ ایجوکیشن سب کمیٹی جاوید صدیق مٹی والا اور کے سی سی آئی مینیجنگ کمیٹی کے اراکین کے علاوہ ایم او این ایچ ایس آر سی کے افسران بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر ثمرہ مظہر نے مزید کہا کہ وزارت صحت نے متعدد اقدامات کیے ہیں بالخصوص تمباکو نوشی سے پاک شہروں کا اقدام جن کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں اور اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو 2025 میں پاکستان کو 30 فیصد کمی کا ہدف حاصل کرلینے کا امکان ہے۔ انہوں نے کراچی چیمبر کی حمایت اور تعاون کو سراہتے ہوئے کہا کہ وزارت صحت کے ساتھ تعاون اور تمباکو نوشی سے پاک شہروں کے منصوبے کی حمایت کے بعد کراچی چیمبر 538 واں تمباکو فری ادارہ بن گیا ہے۔

انہوں نے کے سی سی آئی کو وزارت صحت کے ساتھ ایک ایم او یو پر دستخط کرنے کا مشورہ دیا تاکہ کے سی سی آئی کے سب سے مؤثر پلیٹ فارم کو تمباکو نوشی سے متعلق آگاہی اور دیگر اقدامات کو فروغ دینے کے لئے بروکار لایا جاسکتا ہے تاکہ تمباکو سے پاک معاشرہ قائم کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ اسموک فری کراچی کے اقدام کو کامیاب بنانے کے لیے میگا آگاہی مہم کو سپورٹ کرنا ہوگا اور تاجر برادری کو بھی تمباکو کنٹرول قوانین پر عمل کرنے کی تلقین کرنا ہوگی۔

انہوں نے بعض کامیابیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے خاص طور پر بتایا کہ کمشنر کراچی آفس میں تمباکو کنٹرول ڈیسک قائم کیا گیا ہے اور کمشنر کراچی کی سربراہی میں کراچی امپلیمینٹیشن اینڈ مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔علاوہ ازیں کراچی کے جنوبی اور مشرقی اضلاع میں تمباکو کنٹرول سیل بھی قائم کیے گئے ہیں جبکہ 8 بڑی یونیورسٹیوں، آرگنائزیشنز نے بھی اسموک فری کراچی کے لیے لیٹر آف انٹینٹ پر دستخط کیے ہیں۔

کے سی سی آئی کے صدر محمد ادریس نے اپنے ریمارکس میں تمباکو نوشی کی ممانعت اور تمباکو نوشی نہ کرنے والوں کے صحت آرڈیننس 2002 کے سیکشن 8 اور سیکشن 9 پر عمل درآمد نہ ہونے پر گہری تشویش کا اظہار کیا جس میں 18 سال سے کم عمر بچوں کو اس کی فروخت کرنے پر پابندی عائد ہے اور تدریسی اداروں کے 50 میٹر کے اندر فروخت پر بھی پابندی ہے۔اگرچہ قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کہیں نظر نہیں آتا جو واقعی تشویشناک ہے اور اس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کے سی سی آئی اور وزارت صحت کے درمیان ایم او یو پر اتفاق کرتے ہوئے مشترکہ طور پر واک فار اے کاز کا اہتمام کرنے کا مشورہ دیا جس میں شہریوں اور تاجر برادری کے ارکان بڑی تعداد میں شرکت کریں تاکہ سگریٹ نوشی کے خطرات کے بارے میں شعور اجاگر کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں تمباکو کے استعمال کی شرح اور تمباکو کے استعمال سے ہونے والی بیماریاں زیادہ ہیں۔ملک میں تقریباً 5 میں سے ایک بالغ کسی نہ کسی شکل میں تمباکو کا استعمال کرتا ہے اور اب یہ تعداد 25 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ہمیں اپنے نوجوانوں کو تمباکو کی لت اور اس سے متعلقہ بیماریوں سے بچانے کے لیے آگاہی پیدا کرنے پر بھی اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔