قیدیوں کا تبادلہ، طالبان نے امریکی انجینئر کو رہا کر دیا

DW ڈی ڈبلیو پیر 19 ستمبر 2022 20:20

قیدیوں کا تبادلہ، طالبان نے امریکی انجینئر کو رہا کر دیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 ستمبر 2022ء) طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے مطابق قیدیوں کا یہ تبادلہ کابل ایئرپورٹ پر ہوا۔ بشیر نورزئی سن دو ہزار پانچ سے امریکی قید میں تھے۔ امریکہ نے ان پر 50 ملین ڈالر سے زائد مالیت کی منشیات امریکہ اور یورپ اسمگل کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

امیر خان متقی کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، '' امارت اسلامیہ افغانستان امریکہ سمیت تمام ممالک کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کے لیے تیار ہے۔

‘‘

کابل کے ایک ہوٹل میں نورزئی نے بھی صحافیوں سے گفتگو کی اور اس وقت طالبان کے وزیر خارجہ کے ساتھ ساتھ نائب وزیراعظم بھی ان کے ہمراہ تھے۔ بشیر نورزئی کا کہنا تھا، ''مجھے فخر ہے کہ میں اپنے ملک میں اپنے بھائیوں کے ساتھ ہوں۔

(جاری ہے)

‘‘

افغان سرکاری میڈیا کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ وہ گوانتاناموبے کے حراستی کیمپ میں قید آخری افغانیوں میں سے ایک تھے۔

’تاریکی کا ایک برس‘ مسلم امہ کے نام افغان لڑکیوں کا خط

دوحہ میں مقیم طالبان کے ترجمان محمد نعیم نے ایک ٹویٹ میں کہا، ''محترم حاجی بشیر کو دو دہائیوں کی قید کے بعد رہا کیا گیا ہے اور وہ آج ہی کابل پہنچے ہیں۔‘‘

قبائلی رہنما بشیر نورزئی کے طالبان سے دیرینہ تعلقات ہیں۔ نورزئی کے وکیل نے اس بات کی تردید کی تھی کہ ان کا موکل منشیات فروش تھا۔

رہا ہونے والا امریکی انجینئر کون؟

ساٹھ سالہ امریکی انجینئر مارک فریکس سابق نیوی اہلکار ہیں اور انہیں سن دو ہزار بیس میں اس وقت اغوا کیا گیا تھا، جب وہ ایک ترقیاتی منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ وہ گزشتہ ایک عشرے سے افغانستان کے مختلف ترقیاتی منصوبوں پر کام کر رہے تھے۔

افغانستان میں امریکی سفارت کار موجود نہیں ہیں جبکہ وائٹ ہاؤس نے بھی ابھی تک اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق امریکی حکام اس وقت بھی مارک فریکس کی رہائی کی کوششیں جاری رکھے ہوئے تھے، جب سن دو ہزار اکیس میں کابل سے امریکی فوجیں نکل رہی تھیں۔

افغانستان: اقوام متحدہ نے خواتین ملازمین کو 'ہراساں کرنے' کے خلاف طالبان کو متنبہ کیا

امریکی سکیورٹی حکام ماضی میں یہ الزام عائد کر چکے ہیں کہ مارک کو طالبان کے اتحادی حقانی نیٹ ورک نے اغوا کیا تھا۔

نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق یہ تبادلہ بائیڈن انتظامیہ کے تحت ہونے والے قیدیوں کے اہم ترین تبادلوں میں سے ایک ہے۔

مبصرین کے مطابق قیدیوں کے اس تبادلے سے طالبان حکومت کی قانونی حیثیت پر دنیا کا نقطہ نظر متاثر ہو گا۔ خواتین پر پابندیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے عالمی دنیا طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ طالبان نے پرائمری کے بعد خواتین کی تعلیم پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔

ا ا / ر ب (روئٹرز، اے پی)