ایران کو اقوام متحدہ کے خواتین کمیشن سے ہٹانے کا مطالبہ

DW ڈی ڈبلیو منگل 1 نومبر 2022 11:00

ایران کو اقوام متحدہ کے خواتین کمیشن سے ہٹانے کا مطالبہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 نومبر 2022ء) ایرانی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی مبینہ ہلاکت کے بعد اسلامی جمہوریہ میں مظاہرے شدید تر ہوتے جا رہے ہیں وہیں ایران میں انسانی اور خواتین کے حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے خلاف عالمی رہنماوں کی ناراضگی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

کینیڈا کی پارلیمان نے پیر کے روز اتفاق رائے سے ایک قرارداد منظور کر کے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو اس عالمی ادارے کے خواتین سے متعلق حقوق کے کمیشن (سی ایس ڈبلیو) سے بے دخل کردیا جائے۔

احتجاجی مظاہروں کی کوریج: ایران نے ڈی ڈبلیو پر پابندی لگا دی

کینیڈا کی پارلیمان اس طرح کا مطالبہ کرنے والی دنیا کی پہلی پارلیمان بن گئی ہے۔

(جاری ہے)

جیسنڈا آرڈرن کی اپیل

اس سے قبل اسی طرح کی اپیل نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن اور کینیڈا کی نائب وزیر اعظم کرسٹیا فری لینڈ اور وزیر خارجہ میلانی جولی نے بھی کی تھی۔

جیسنڈا آرڈرن نے اپنے ایک خطاب کے دوران کہا، "یہ بات مناسب نہیں کہ ایک ایسا ملک جو خواتین کے حقوق پر بھیانک طریقے سے حملے کر رہا ہے، اسے ایک ایسے موقر عالمی ادارے میں شامل رکھا جائے جس نے خواتین کو بااختیار بنانے اور صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہے۔"

ایران: نیوزی لینڈ کے زیر حراست جوڑے کو رہا کر دیا گیا

نیوزی لینڈ سی ایس ڈبلیو کا رکن ہے اور وہ اگر چاہے تو ایران کو اس ادارے سے بے دخل کرنے کے لیے تجویز پیش کرسکتا ہے۔

خواتین رہنماوں کا کھلا خط

سماجی، سیاسی، فنون لطیفہ اور دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی دنیا کی معروف خواتین نے امریکی روزنامے 'نیویارک ٹائمز' میں ایک کھلا خط شائع کیا ہے، جس میں ایران کو اقوام متحدہ کی سی ایس سی سے فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اس خط پر دستخط کرنے والوں میں سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن، کینیڈا کی نائب وزیر اعظم کرسٹیا فری لینڈ، وزیر خارجہ میلانی جولی، میڈیا کی معروف شخصیت اوپرا ونفری، نوبل امن انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی، امریکہ کی سابق خاتون اول مشیل اوباما وغیرہ شامل ہیں۔

کھلے خط میں کہا گیا ہے، "ہم پرامن مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کے وحشیانہ تشدد کی مذمت کرتے ہیں۔ اس سال کے اوائل میں، ایران نے اقوام متحدہ کے 45 رکنی کمیشن برائے خواتین کی حیثیت پر چار سال کی مدت کا آغاز کیا، جس سے دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے حامیوں کی مایوسی ہوئی ہے۔"

خط میں مزید کہا گیا ہے، "یہ ممتاز عالمی ادارہ خصوصی طور پر صنفی مساوات کو فروغ دینے اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے وقف ہے۔

ایران کی جانب سے خواتین پر طویل عرصے اور منظم جبر کو انہیں سی ایس ڈبلیو کے انتخابات کے لیے نااہل قرار دینا چاہیے تھا۔"

خط پر دستخط کرنے والوں نے متنبہ کیا ہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر عالمی مداخلت کے بغیر تشدد اور جانی نقصان کا سلسلہ جاری رہے گا اور ایران کے رکن رہنے سے خواتین کی حیثیت سے متعلق کمیشن اپنی ساکھ کھو دے گا۔

ایران میں مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن کی قیادت کون کر رہا ہے؟

یہ بیانات اور کھلا خط ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد 40 روز سے زائد عرصے سے ایران اور دنیا بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں اور کارکنوں نے ان مطالبات کا خیر مقدم کیا ہے۔

ایران کی اپیل

اس دوران ایران نے اقوام متحدہ کے رکن ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ امریکہ کی ایما پر بدھ کے روز سلامتی کونسل میں ہونے والی میٹنگ میں شرکت نہ کریں۔ تہران نے واشنگٹن پر انسانی حقوق کو سیاسی رنگ دینے کا الزام بھی لگایا۔

خیال رہے کہ ایران میں مہسا امینی کی ہلاکت اور جاری مظاہروں کی صورت حال پر غور و خوض کے لیے امریکہ اور البانیہ نے بدھ کے روز سلامتی کونسل کی ایک غیر رسمی میٹنگ طلب کی ہے۔ جس میں اقوام متحدہ کا کوئی بھی رکن شرکت کر سکتا ہے۔ ایرانی نوبل انعام یافتہ شیریں عبادی اور ایرانی نژاد اداکارہ اور سماجی کارکن نازنین بنیادی بھی اس میٹنگ سے خطاب کریں گی۔

حجاب تنازعہ: تہران نے برطانوی اور نارویجیئن سفیروں کو طلب کرلیا

اقوام متحدہ میں ایرانی سفیر امیر سعید اراونی نے اقوام متحدہ کے رکن ملکوں کو بھیجے گئے ایک خط میں کہا، "امریکہ کو ایران یا دنیا میں کہیں بھی انسانی حقوق کی صورت حال سے سچی اور حقیقی دلچسپی نہیں ہے۔ اور اگر سلامتی کونسل میں اس مسئلے پر بات چیت ہوتی ہے تو اس سے انسانی حقوق کے فروغ پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔"

ج ا/ ص ز (روئٹرز، ایجنسیاں)