اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 مئی 2025ء) سعودی عرب میں امریکی اتحادیوں سے ملاقات کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکہ شام کے خلاف باقی ماندہ تمام پابندیاں بھی اٹھا رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا، ''میں شام کے خلاف پابندیاں ختم کرنے کا حکم دوں گا تاکہ انہیں اپنی عظمت رفتہ بحال کرنے کا موقع دیا جا سکے۔
‘‘شام میں نئی عبوری حکومت اقتدار میں آ گئی
صدر ٹرمپ نے شامی قوم سے براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ''ہمیں اپنے مستقبل کے لیے کچھ خاص دکھائیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے شام کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے پہلا قدم اٹھا لیا ہے، جو ایک طویل عرصے سے بدترین حالات سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب شام کے لیے آگے بڑھنے کا وقت ہے۔
(جاری ہے)
صدر ٹرمپ کی شام کے عبوری صدر احمد حسین الشرع سے آج بدھ 14 مئی کے روز ایک ملاقات متوقع ہے۔
شام کے نئے حکمران زیادہ یورپی امداد کے لیے پرامید
واضح رہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد دمشق میں قائم نئی حکومت نے عالمی برادری سے شام پر عائد پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کیا تھا۔ ان پابندیوں نے ملک کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور اقتصادی بحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تصور کی جا رہی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے اپنے تین ملکی دورے کے پہلے مرحلے میں کل منگل کے روز سعودی عرب پہنچے تھے۔ وہ متحدہ عرب امارات اور قطر بھی جائیں گے۔
ایران کے ساتھ تنازعہ نہیں چاہتے، ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو ایران کے ساتھ ایک نئے جوہری معاہدے پر زور دے رہے ہیں، نے کہا کہ ایران ایک ''نیا اور بہتر راستہ‘‘ اختیار کرے۔
امریکی سعودی سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ تہران کے ساتھ تنازعے سے بچنا چاہتے ہیں۔
اگلے امریکی ایرانی جوہری مذاکرات ملتوی، ٹرمپ کی نئی دھمکی
صدر ٹرمپ نے کہا، ''جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے، میں ماضی کے تنازعات کو ختم کرنے اور ایک بہتر اور زیادہ مستحکم دنیا کے لیے نئی شراکت داری قائم کرنے کے لیے تیار ہوں، چاہے ہمارے اختلافات بہت گہرے ہی کیوں نہ ہوں۔
‘‘امریکہ کا ایران سے براہ راست بات چیت کا ارادہ
امریکی صدر نے مزید کہا، ''اگر ایران کی قیادت امن کی پیش کش کو مسترد کرتی ہے اور اپنے پڑوسیوں پر حملے جاری رکھتی ہے، تو ہمارے پاس زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا، اور ایرانی تیل کی برآمدات کو پہلے کی طرح صفر تک لے جائیں گے۔‘‘
’ریاض اپنے وقت پر ابراہیمی معاہدوں پر دستخط کرے گا‘
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ ان کی ''دیرینہ امید‘‘ ہے کہ سعودی عرب ابراہیمی معاہدوں میں شامل ہو گا اور اسرائیلی ریاست کو باقاعدہ تسلیم کر لے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا، ''یہ مشرق وسطیٰ میں ایک خاص دن ہو گا، جس پر پوری دنیا کی نگاہیں ہوں گی، جب سعودی عرب ہمارے ساتھ شامل ہو گا۔ آپ مجھے بہت عزت دیں گے اور آپ ان تمام لوگوں کو بھی بہت عزت دیں گے، جنہوں نے مشرق وسطیٰ کے لیے بہت جدوجہد کی ہے۔‘‘
متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحالی معاہدے پر دستخط کردیے
امریکی صدر نے اس حوالے سے سعودی عرب کے بارے میں کہا، ''آپ یہ اپنے وقت پر کریں گے۔
‘‘ابراہیمی معاہدے، جن کے ذریعے اسرائیل اور چار عرب اور افریقی ممالک کے درمیان باضابطہ تعلقات قائم ہوئے، ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت (2017 تا 2021) کے دوران طے پائے تھے۔
متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش وہ ریاستیں ہیں، جنہوں نے تب ان معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔
سعودی عرب، جس کے اسرائیل کے ساتھ تاحال کوئی باضابطہ تعلقات نہیں ہیں، اس یہودی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے غزہ میں جنگ کے خاتمے اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام پر اصرار کرتا رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش رو، جو بائیڈن کے دور میں ریاض پر ان معاہدوں پر دستخط کرنے کے لیے ایک اہم سفارتی دباؤ تھا۔
سعودی عرب کے عملی حکمران، ولی عہد محمد بن سلمان سات اکتوبر 2023 کو حماس کے دہشت گردانہ حملوں سے قبل اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے میں امریکہ کے ساتھ ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کرنے کے قریب تھے۔
سعودی عرب کی امریکہ میں 600 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری
سعودی عرب نے امریکہ میں 600 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی تصدیق کر دی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی میں سعودی امریکی سرمایہ کاری فورم سے خطاب کرتے ہوئے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا، ''سعودی مملکت 600 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے مواقع پر غور کر رہی ہے اور امید ہے کہ یہ سرمایہ کاری بڑھ کر ایک ہزار بلین یا ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔‘‘
ٹرمپ سعودی عرب کو 100 بلین ڈالر سے زائد کا اسلحہ پیکج دینے کو تیار
صدر ٹرمپ نے ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے امریکہ میں 600 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے وعدے کا خیرمقدم کیا۔
واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس نے بھی منگل کے روز کہا کہ سعودی عرب امریکہ میں 600 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے والا ہے، جس میں تقریباً 142 بلین ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کی فروخت کا معاہدہ بھی شامل ہے۔
ادارت: مقبول ملک