لاہور ہائیکورٹ نے چودھری پرویز الہی کو کابینہ سمیت وزیر اعلی پنجاب کے عہدے پر بحال کر دیا، ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن معطل ،سات دن میں اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم

جمعہ 23 دسمبر 2022 19:50

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 دسمبر2022ء) لاہور ہائیکورٹ نے گورنر پنجاب کی طرف سے چوہدری پرویز الہی کو وزیر اعلی پنجاب کے عہدے سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے اقدام کے خلاف دائر درخواست پر چودھری پرویز الہی کو کابینہ سمیت وزیر اعلی پنجاب کے عہدے پر بحال کر دیا۔عدالت نے گورنر پنجاب کا چودھری پرویز الہی کو وزارت اعلی کے عہدے سے ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔

نوٹیفکیشن معطل ہونے کے بعد چودھری پرویز الہی وزارت اعلی کے عہدہ پر کابینہ سمیت دوبارہ بحال ہو گئے۔عدالت نے گورنر کا آرڈر کالعدم قرار دیتے ہوئے سات دن میں وزیر اعلی پنجاب کو اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم دے دیا۔دائر کی گئی آئینی درخواست میں گورنر پنجاب، سپیکر پنجاب اسمبلی، حکومت پنجاب کو فریق بنایا گیا تھا۔

(جاری ہے)

جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔

بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس چوہدری محمد اقبال، جسٹس عاصم حفیظ اور مزمل اختر شبیر شامل ہیں۔قبل ازیں فاضل بینچ میں جسٹس فاروق حیدر نے ذاتی وجوہات کی بنا پر سماعت سے معذرت کر لی تھی جس پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے نیا بینچ تشکیل دیا جس میں جسٹس فاروق حیدر کی جگہ جسٹس عاصم حفیظ کو بنچ میں شامل کیا گیا۔ فاضل بینچ کے روبرو سماعت پر پرویز الہی کے وکلا بیرسٹر علی ظفر اور ایڈووکیٹ عامر سعید راں ،ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نثر احمد موجود تھے جبکہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے وکلا بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے ۔

عدالت کے روبرو چوہدری پرویز الہی کے وکلا بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گورنر عدم اعتماد کے لیے دن اور وقت کا تعین نہیں کر سکتے، عدم اعتماد کے لیے بھی طریقہ کار موجود ہے،اراکین کو نوٹس دیتے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ جب عدم اعتماد کے لیے تین سے سات دن کا وقت ہے تو اعتماد کے ووٹ کے لیے ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔عدالت نے درخواست گزار سے سوال کیا کہ رولز کے مطابق کیا اسی دن ووٹنگ نہیں ہو سکتی،علی ظفر نے بتایا کہ سپیکر کو اختیار ہے وہ ایک ہی دن نوٹس اور ووٹنگ کرا سکتا ہے ،رولز کے مطابق ووٹ کا کہنے کیلئے مناسب وقت دینا ہوتاہے۔

اگر سپیکر سمجھے تمام ممبران پورے ہیں تو دو روز میں ووٹنگ ہوسکتی ہے، اگر سپیکر سمجھے کہ تمام ممبران کی شرکت کیلئے وقت دینا ضروری ہے تو مناسب وقت دیا جانا چاہیے،بیرسٹر علی ظفر نے موقف اختیار کیا کہ گورنر نے اعتماد کے ووٹ کیلئے اسپیکر کو خط لکھا،وزیر اعلی نے اعتماد کا ووٹ لینے سے انکار نہیں کیا،اجلاس اسپیکر نے بلانا ہے وزیر اعلی خود سیشن نہیں بلا سکتے ،اگر اجلاس ہوا ہی نہیں تو پھر گورنر نے خود سے کیسے فیصلہ کرلیا۔

اجلاس بلانے کے اختیارات اسپیکر کے پاس ہیں،اگر گورنر سمجھے کہ وزیر اعلی اکثریت کھو چکے ہیں تو وہ عدم اعتماد کے ووٹ کا کہ سکتے ہیں ۔ عدم اعتماد کے لیے الگ سے سیشن بلایا جاتا ہے یہ تو ایسے ہی کہ دو افراد کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں سزا تیسرے کو دے دی جائے۔بینچ نے پرویز الہی کے وکیل سے استفسار کیا کہ ہدایت لے کر آئیں کہ اعتماد کا ووٹ لینے تک اسمبلی تحلیل نہیں کی جائے گی۔

سماعت کے دوران جسٹس عابد عزیز شیخ نے درخواست گزار کے وکیل سے سوال کیا کہ ہم گورنر کا نوٹیفکیشن معطل کر دیں تو کیا آپ فوری اسمبلی تحلیل کر دیں گے،منظور وٹو کیس نکال کر پڑھیں،شاید ایسا پہلے ہو چکا ہے۔پرویز الہی کے وکیل نے استدعا کی کہ اسمبلی تحلیل نہ کرنے سے متعلق انڈر ٹیکنگ کے لیے مزید وقت درکار ہے، اگر عدالت پرویز الہی کو بحال کرتی ہے تو عدالت حکم جاری کر دے کہ اسمبلی تحلیل نہیں ہو گی، جس پر جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دئیے کہ ہم ایسا آرڈر کیسے جاری کر سکتے ہیں، یا پھر ہم آپ کو عبوری ریلیف نہ دیں، پرویز الہی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ آپ کی انڈر ٹیکنگ لینے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی غلط استعمال نہ کر سکے، تحریری طور پر یقین دہانی کے لیے کچھ وقت چاہیے۔

عدالت نے ایک بار پھر سماعت میں وقفہ کر دیا اور کہا کہ ہم آپ کو ہدایات لینے کیلئے مزید ایک گھنٹے کا وقت دے دیتے ہیں، وقفہ کے بعد سماعت شروع ہوئی توپنجاب کے وزیراعلی پرویزالہی نے عہدے پر بحال کیے جانے پرلاہور ہائیکورٹ کو اسمبلی نہ توڑنے کی یقین دہانی کرادی۔ جس کے بعد عدالت نے گورنر کا حکم معطل کرتے ہوئے پرویز الہی اور پنجاب کابینہ کو بحال کر دیا۔

عدالت کے روبرو آئینی درخواست میں درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا تھا کہ گورنر پنجاب نے آئین کے آرٹیکل 130 سب سیکشن 7 کی غلط تشریح کی،گورنر پنجاب نے اختیارات کاغلط استعمال کرتے ہوئے وزیراعلی کو ڈی نوٹیفائی کیا،گورنر کے پاس وزیراعلی کو تعینات کرنے کی اتھارٹی نہیں اسی لئے وزیراعلی کو ہٹانے کا بھی اختیار نہیں رکھتے،گورنر نے اسپیکر کے ساتھ تنازعہ میں وزیراعلی کو غیرقانونی طور پر ہٹایا،جب تک سپیکر اعتماد کے ووٹ کے لئے اجلاس نہیں بلاتا تو بطور وزیر اعلی کیسے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا جا سکتا ہے،گورنر پنجاب کو سپیکر کی رولنگ کے بعد کسی کارروائی کا کوئی اختیار نہیں تھا،گورنر نے چلتے ہوئے اجلاس میں اعتماد کے ووٹ کے لئے دوسرا اجلاس بلانے کا غیر آئینی حکم دیا،آئین کے تحت گورنر وزیراعلی پر مجاز اتھارٹی نہیں ہیں۔

چیف سیکرٹری پنجاب نے وزیراعلی کی منظوری کے بغیر انہیں کام سے روکنے اور کابینہ کی تحلیل کا غیر قانونی نوٹیفکیشن جاری کیا،چیف سیکرٹری پنجاب وزیراعلی کی منظوری کے بغیر براہ راست گورنر کے کسی حکم پر عمل درآمد کرنے کے پابند نہیں،گورنر نے نوٹیفکیشن کے ذریعے عوام کو ان کے حق سے محروم کرنے کا غیر آئینی اقدام کیا،گورنر کا یہ اقدام جمہوری عمل کی روح کے خلاف ہے،گورنر کے نوٹیفیکشن سے پنجاب کے عوام کا حق رائے دہی کا بنیادی حق براہ راست متاثر ہوا،عدالت گورنر اور چیف سیکرٹری پنجاب کے جاری نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے۔

عدالت نے گورنر پنجاب کا چوہدری پرویز الہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا اور پرویز الہی کو وزیر اعلی پنجاب کے عہدے پر بحال کرنے کا حکم دے دیا ۔