زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے سائنسدانوں کا لہسن کی جدید قسم نارک جی ون کے ماڈل فارمز کا دورہ

اس لہسن کو کمرشل بنیادوں پر اُگا کر 70 ارب روپے کا خطیر زرمبادلہ بچانے کے ساتھ ساتھ کسانوں کو پانچ گنا منافع بہم پہنچایا جاسکتا ہے

پیر 20 مارچ 2023 16:42

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے سائنسدانوں کا لہسن کی جدید قسم نارک جی ..
فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 مارچ2023ء) زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے سائنسدانوں کا لہسن کی جدید قسم نارک جی ون کے ماڈل فارمز کا دورہ۔ اس لہسن کو کمرشل بنیادوں پر اُگا کر 70 ارب روپے کا خطیر زرمبادلہ بچانے کے ساتھ ساتھ کسانوں کو پانچ گنا منافع بہم پہنچایا جاسکتا ہے۔تفصیلات کے مطابق شعبہ انٹومالوجی کے چیئرمین اور یونیورسٹی کے ترجمان پروفیسر ڈاکٹر محمد جلال عارف کی سربراہی میں ڈاکٹر مزمل جہانگیر، ڈاکٹر محمد عتیق، ڈاکٹر محمد اعظم، ڈاکٹر عابد علی، ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت توسیع ڈاکٹر محمد اقبال نیازی پر مشتمل سائنسدانوں کے وفد نے خصوصی طور پر لہسن کی حیرت انگیز نئی ورائٹی جی ون کے مختلف ماڈل فارمز کا ضلع خانیوال کے علاقوں میں دورہ کیا۔

دورے کے دوران عبدالحکیم میں واقع اسد ایگریکلچر فارم پر ڈرپ اریگیشن اور نئی جدت سے اُگائے جانے والے اس حیرت انگیز ورائٹی کے نمائشی پلاٹس کا نہ صرف معائنہ کیا بلکہ اس موقع پر ایک آگاہی سیمینار میں بطور مہمان خصوصی شرکت بھی کی۔

(جاری ہے)

سیمینار کا اہتمام محمد اقبال بابر نے کیا تھا۔ ڈاکٹر جلال عارف نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت لہسن اور پیاز کی پیداوار میں 81ہزار ٹن کے ساتھ انیسویں نمبر پر موجود ہے جبکہ ہمیں ملکی ضروریات کے لیے 46 ہزار ٹن لہسن درآمد کرنا پڑتا ہے جس پر 70 ارب روپے سے زائد خطیر زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کے ہمیں لہسن کی پیداوار میں اضافے کیلئے جدید ورائٹیز متعارف کرانے کی ضرورت ہے کیونکہ روایتی طور پر ہمارا کسان مقامی ورائٹیز سے 70 سے 80 من فی ایکڑ پیداوار حاصل کر رہا ہے جوکہ پڑوسی ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس نئی ورائٹی میں 2 سو سے 250 من فی ایکڑ پیداوار کی صلاحیت موجود ہے جس کے لیے ہمیں زرعی توسیع کی مدد سے عام کسان تک اس کی ٹیکنالوجی کی منتقلی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں فی کس لہسن کی ضرورت 250 سے 400 گرام ہے جبکہ پاکستان میں 30 سے 50 گرام فی کس لہسن استعمال کیاجا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری مقامی پیداوار 80 ہزار میٹرک ٹن ہے جبکہ 50 ہزار میٹرک ٹن درآمد کرنا پڑتی ہے۔انہوں نے کہا کہ جی ون کے کاشتکاروں کی اجتماعی کاوشوں سے مستقبل میں پاکستان کے نہ صرف لہسن کی پیداوار میں خود کفالت کے امکانات روشن ہوتے دکھائی دے رہے ہیں بلکہ ویلیو ایڈیشن کے ذریعے اس کا پیسٹ بیرون ملک برآمد کر کے خطیر زرمبادلہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد اپنے طلبہ کو انٹرن شپ کیلئے ان جدید ماڈل فارمز پر بھجوائے گی تاکہ نوجوانوں میں کاروباری صلاحیتوں میں بہتری کیلئے کام کیا جاسکے۔ ان سے پہلے پنجاب کے چیف انفارمیشن کمشنر محبوب قادر شاہ نے اپنے خطاب کے دوران اس سیمینار کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس حیرت انگیز انقلاب کی وجہ سے قدرت نے پاکستان کے لیے کامیابیوں کا نہ دروازہ کھولا ہے جسے ایک معاشی ایٹم بم قرار دیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جدید رجحانات رکھنے والے زمینداروں نے جی ون کو ایک انڈسٹری کے طور پر آگے بڑھایا ہے جو کہ نچلی سطح پر غربت کے خاتمے اور روزگار کی فراہمی کے لیے اکسیر ثابت ہوگی۔ ان سے پہلے اسد ایگریکلچر فارم کے مالک محمد اقبال بابر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں لہسن کی کوئی بھی ورائٹی وزن، ذائقے اور سائز کے لحاظ سے جی ون کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ ترقی پسند زمیندار حاجی منطور اکبر لالیکا، چوہدری مدثر محمود، رانا سخاوت، میاں ارشد اقبال ایڈووکیٹ اور دیگر نے بھی سیمینار سے خطاب کیا۔ بعد ازاں شرکاء کو لہسن کے نمائشی کھیتوں کا معائنہ بھی کرایا گیا۔