ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت میں مشتعل مظاہرین نے افغان جنگ کے دوران 1980 کے مقبول پروگراموں کے ڈیجیٹل ریکارڈ کو بھی نقصان پہنچایا

جمعہ 19 مئی 2023 23:28

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 مئی2023ء) ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت میں توڑ پھوڑ اور آگ لگانے کے علاوہ مشتعل مظاہرین نے افغان جنگ کے دوران 1980 کے مقبول پروگراموں کے ڈیجیٹل ریکارڈ کو بھی نقصان پہنچایا۔ریڈیو پاکستان پشاور کے پروگرام مینیجر حبیب النبی کے مطابق 1979 میں افغان جنگ کے دوران ریاست دشمن عناصر کے پروپیگنڈے کو ناکام بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے حجرہ اور ہندارہ سمیت مشہور پروگراموں کے ڈیجیٹل ریکارڈ کو شرپسندوں نے 10 مئی کو جلا کر راکھ کر دیا۔

انہوں نے کہا کہ حجرہ اور ہندارہ پروگراموں کے ذریعے ریڈیو پاکستان پشاور نے 1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد عوام میں بیداری پھیلائی اور اس غیر یقینی صورتحال کے دوران ریاست دشمن عناصر کے مذموم پروپیگنڈے کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ معروف براڈکاسٹر عبداللہ جان مغموم اور شہزاد جوہر جنہوں نے لائیو شوز میں 'پائندہ خان اور توکل خان' کے کردار ادا کیے، افغان جنگ کے مختلف پہلوؤں اور خطے کے امن و استحکام پر اس کے منفی اثرات کے علاوہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر مؤثر طریقہ سے روشنی ڈالی ہے۔

واضح رہے کہ ابتدائی طور پر حجرہ پروگرام سماجی مسائل پر مبنی تھا تاہم جب پاکستان کے خلاف دشمن قوتوں کے منفی پروپیگنڈے میں اضافہ ہوا تو ریڈیو پاکستان ہی قوم کی مدد کے لیے آگے آیا۔ قومی نشریاتی ادارے نے نہ صرف مخالفین کے بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈے کا مقابلہ کیا ہے بلکہ افغان جنگ کی حقیقی تصویر اور علاقائی امن و استحکام پر اس کے منفی نتائج کو بھی اجاگر کیا ہے۔

1980 میں شروع ہونے والے ہنجرا پروگرام نے لاکھوں افغان مہاجرین کی پاکستان ہجرت کے بعد ان کی مشکلات کو بھی اجاگر کیا ہے ریٹائرڈ انفارمیشن آفیسر مشال خان بتاتے ہیں کہ افغان جنگ کے دوران ریڈیو کابل اور آل انڈیا ریڈیو سے پاکستان کے خلاف بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈہ کیا گیا۔ یہ ریڈیو پاکستان تھا جس نے نہ صرف حریف ریڈیوز کے منفی پروپیگنڈے کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا بلکہ اتحاد اور قومی ہم آہنگی کو بھی فروغ دیاانہوں نے کہا کہ لاکھوں لوگوں نے 1980 کی دہائی میں ریڈیو پاکستان کے مشہور پروگرام ہندارا کو اس کے بہترین اسکرپٹ، مواد، معروضیت اور افغان جنگ کے دوران ڈائیلاگ ڈیلیوری کی وجہ سے سنا۔

حبیب النبی نے کہا کہ ہندارہ پروگرام اب بھی ریڈیو پاکستان سے نشر کیا جا رہا ہے اور اس کی سگنیچر ٹیون سننے والوں کو ریڈیو پاکستان سٹیشن پشاور کی ماضی کی یاددلاتی ہے انہوں نے کہا کہ ریڈیو پاکستان کے ادبی پروگرام یعنی پیپلز میگزین کا ڈیجیٹل ریکارڈ جس میں نامور ادیبوں قلندر مہمند، غازی سیال، اجمل خٹک، سمندر خان سمندر اور غازی سیال کی نایاب آوازیں تھیں کو بھی نقصان پہنچا۔

انہوں نے کہا کہ کچھ مشہور پروگراموں جیسے سائبان، ہیومن یوتھ، سوکھی گھر اور فیچرز/دستاویزی فلموں کی ریکارڈنگ حملے کے بعد متاثر ہوئی تھیں تاہم ہماری ٹیمیں قومی نیٹ ورک پر اس کی ترسیل کے عمل کو بحال کرنے میں مصروف ہیں۔انہوں نے کہا کہ معروف موسیقاروں اور گلوکاروں کے مقبول پشتو اور اردو گانوں کے علاوہ مشہور ادیبوں کے ہاتھ سے لکھے ڈراموں کے سکرپٹ کو بھی نذر آتش کر دیا گیا۔

معروف گلوکار احمد خان، خیال محمد، معشوق سلطان اور رفیق شنواری کے گائے ہوئے پشتو اور اردو گانوں کی ڈسکوں کو بھی نقصان پہنچا۔نامور مصنفین حمزہ خان شنواری، ڈاکٹر محمد اعظم اعظم، یونس قیاسی، ارباب عبدالوکیل، ہمایوں ہما، ساحر آفریدی، بیگم اے آر داؤد، زیتون بنوں اور سید رسول رسا کے تصنیف کردہ اصلی نایاب ہاتھ سے لکھے ہوئے پشتو اور اردو ڈراموں کے اسکرپٹ کو تباہ کر دیا گیا۔

پرتشدد ہجوم نے سینکڑوں نایاب ڈراموں کے اسکرپٹ کے ساتھ کیٹلاگ اور مختلف موضوعات پر کتابوں کو بھی آگ لگا دی۔انہوں نے کہا کہ معروف صوفی شاعر رحمان بابا اور آزادی پسند خوشحال خان خٹک کی ادبی کتابوں کو نذر آتش کرنے کے علاوہ دوہزار کے قریب تاریخی کتابوں کو نذر آتش کیا گیااسی طرح 13-14 اگست 1947 کی درمیانی شب پاکستان کے یوم آزادی کا اعلان پشتو اور اردو میں کرنے والے معروف براڈکاسٹرز عبداللہ جان مغموم اور آفتاب احمد کی نایاب تصویر کے علاوہ قرآن پاک کی تلاوت کرنے والے قاری خوشی محمد کی بھی نہیں رہی۔