حکومت اقلیتوں کے انسانی حقوق کو تحفظ دے ، پیٹر جیکب

شادی کیلیے عمر 18 سال مقرر کرکے کم عمری کی شادی کو کالعدم قرار دیا جائے، مہناز رحمن

اتوار 28 مئی 2023 16:05

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 مئی2023ء) سینٹر فار سوشل جسٹس (ادارہ برائے سماجی انصاف ) کے زیر اہتمام’’انسانی حقوق کے تحفظ کے نظام اور مذہبی اقلیت‘‘کے موضوع پر منعقدہ سیمینار کے مقررین نے انسانی حقوق کے مسائل سے نمٹنے کے لیے سخت اقدامات کا مطالبہ کیا، سیمینار کے مقررین بشمول پیٹر جیکب، مہناز رحمٰن، نزہت شیریں، رخسانہ پروین کھوکھر، لبنیٰ جرار، وینگس ، ڈاکٹر ہیرا لعل لوہانو اور ڈاکٹر ریاض شیخ نے انسانی حقوق کو اولین ترجیح بنانے اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے پالیسی اصلاحات متعارف کرانے پر زور دیا۔

اس موقع پر ادارہ برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے کہا کہ 2023 کے پہلے چار مہینوں میں جبری تبدیلی مذہب کے 39 واقعات رپورٹ ہوئے،ایسا لگتا ہے کہ حکومت ہندواور مسیحی لڑکیوں کے اغوا اور جبراً تبدیلی مذہب میں ملوث جرائم کو روکنے میں ناکام ہے، پولیس نے 39 مغویوں میں سے صرف تین لڑکیوں کو بازیاب کرایا جبکہ 2 لڑکیاں اغوا کاروں کے چنگل سے فرار ہو ئیں جبکہ باقی اس دعوے کے تحت اغوا کاروں کی قید میں ہیں کہ انہوں نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ غیر مسلم لڑکیوں کے اغواء کے کل 39 کیسز میں سے 35 سندھ، 3 پنجاب اور ایک کیس بلوچستان سے رپورٹ ہوا، اس لیے حکومت کواس صورتحال پر فوری توجہ دینی چاہیے ، انسانی حقوق کی ایک ممتاز رہنما مہناز رحمان نے کہا کہ پاکستان میں بچیوں اور زبردستی کی شادیاں کئی وجوہات کی بناء پر رائج ہیں جن میں روایتی طریقے، غربت، شعور، تعلیم و ہنر کی کمی اور قانون کی حکمرانی کا فقدان شامل ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کو لاگو کرے اور ملک بھر میں شادی کی کم از کم قانونی عمر 18 سال مقرر کرکے کم عمری کی شادی کو کالعدم قرار دے، اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر ہیرالعل نے کہا کہ قانونی قومی کمیشن برائے اقلیت کے قیام کا مطالبہ کیا جو 30 سال سے زیر التوا ہے، لیگل ایڈ سوسائٹی کی رخسانہ پروین کھوکھر نے کہاکہ صنفی بنیاد پر ہونے والے جرائم سماج میں بدنامی کے خوف، غربت اور انسانی حقوق کے تحفظ کے طریقہ کار تک محدود رسائی کی وجہ سے رپورٹ نہیں ہوتے، حکومت کم سنی کی شادی ، جبری شادی اور جبری تبدیلی مذہب سے نمٹنے کے لیے قوانین، پالیسیاں اور مئوثر حکمت عملی وضع کرکے ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائے، نزہت شیریں نے اپنے خطاب میں گھریلو تشدد جیسے مجرمانہ فعل کے خلاف قانون سازی اور اس پر عملدرآمد کے لیے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی تربیت پر زور دیا، لبنیٰ جرار نے کہا کہ تمام شہریوں کے مساوی آئینی اور انسانی حقوق ہیں، آئین میں کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہیے، جبری تبدیلی مذہب پسماندہ طبقات کے حقوق غصب کر رہی ہیں جو کہ ایک سنگین مسئلہ ہے ، حکومت کو فوری طور پر ملک بھر میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر کرے اور اس پر فوری عمل کرائے تاکہ مختلف صوبوں میں مختلف قوانین کے ذریعے نوجوان لڑکیوں کا استحصال نہ ہوسکے۔

سیمینار کے آغاز پر سینٹر فار سوشل جسٹس کے ذمہ داروں ،سیاسی نمائندوں کے ساتھ سول سوسائٹی کا ایک مشاورتی اجلاس منعقد ہوا جس میں اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے وعدوں، اقدامات اور کارکردگی پر تبادلہ خیال کیا گیا، اس موقع پر سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور پی ایم ایل این کے اراکین شمیم ممتاز، سورتھ تھیبو ،کلثوم اختر چانڈیو اور ایم پرکاش نے اقلیتوں کو درپیش انسانی حقوق کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے کا عہد کیا۔