دیوار کے پیچھے خفیہ قوت ہی حکومت کو چلائے گی، مولانا فضل الرحمن

جمعرات 22 فروری 2024 22:29

دیوار کے پیچھے خفیہ قوت ہی حکومت کو چلائے گی، مولانا فضل الرحمن
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 فروری2024ء) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ن لیگ اور پی پی شامل ہو تو روز ایک دوسرے کو بلیک میل کریں گے جبکہ دیوار کے پیچھے خفیہ قوت ہوگی وہی ان کو چلائیں گے۔جمعرات کے روز جمیعت علماء اسلام جنرل کونسل کے اجلاس سے کرتے ہوئیمولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 2018 کے الیکشن کے بعد ہمارا یہ خیال تھا کہ 2024 کا الیکشن منصفانہ اور شفاف ہوگا لیکن ایک بار پھر ہماری خواہش اور آئین کی بالادستی کو کچل دیا گیا ہے، مجھے اب فکر اس بات کی ہے اگر دو الیکشن مسلسل متنازعہ ہوں تو پھر پارلیمان کی اہمیت کیا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ براہ راست مداخلت کرکے ایک ایک حلقے سے اپنی مرضی سے نمائندوں کو چنے گی تو وہ عوام کا نمائندہ نہیں ہوگا، ایسی پارلیمنٹ کیسی پارلیمنٹ ہوگی جس کے بارے میں انگلی اٹھے گی کہ اس کو بھی ایجنسیوں نے پاس کیا ہے، جس کو مخالف دیکھا اس کے خلاف کرپشن کے کیس کر دیئے۔

(جاری ہے)

فضل الرحمان نے کہا کہ دعوے سے کہتا ہوں اس الیکشن میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پچھتر سالہ کرپشن کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں، وردیاں عزت نہیں دیتیں بلکہ وردیوں میں کردار عزت دیتے ہیں۔

ہم جمہورت کے علمبردار ہیں، ہمارے بزرگ اس آئین کے بانی ہیں اور اس آئین کے تحفظ کو ہم اپنی ذمہ داری تصور کرتے ہیں لیکن آئین کی کوئی حیثیت نہیں، آئین چند ٹکڑوں کا نام ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں، اکثریت کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ قرآن کے فیصلوں کو بدل دے۔ یہاں ہمارے پارلیمنٹ کی حاکمیت نہیں ہمارے ملازمین کی حاکمیت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم کس طرح اس نظام کے ساتھ چلیں گی پاکستان مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور ہم نے مل کر تحریک چلائی ہے، ان پارٹیوں کے راہنما کنٹینروں پر ہوتے تھے اور ہمارے کارکن سڑکوں پہ ہوتے تھے، 2018 میں بھی آپ کا یہی مینڈیٹ تھا اور آج بھی یہی ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کل دھاندلی ہوئی تھی اور آج دھاندلی نہیں ہوئی، پی ٹی آئی کا بھی وہی مینڈیٹ ہے جو 2018 میں ملا تھا۔ پی ٹی آئی سے پوچھتا ہوں جب اس وقت آپ حکومت بنا رہے تھے تو دھاندلی نہیں ہوئی اور آج دھاندلی ہوئی ہے، پارلیمنٹ میں میری قوت کسی اور کی مرہون منت ہے لیکن جب سڑکوں پر آؤں گا تو اپنے زور بازو پر آؤں گا۔سربراہ جمعیت علمائے اسلام کا کہنا تھا کہ کرسی بانٹ حکومت کی کوئی افادیت نہیں، ہم پھونک پھونک کر آگے جا رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں ہماری فوج ملکی دفاع کی صلاحیت رکھے، بیرونی دشمن تو دور کی بات ملک کے اندر 20 سال سے دہشت گردی ہو رہی ہے، دہشت گردی بڑھ رہی ہے اور یہ پتہ نہیں کیا کر رہی ہیں، جب دفاعی قوت سیاسی قوت بن گئی ہے تو تنقید میرا حق ہے۔

کیا پارلیمنٹ اتنی بڑی مجبوری بن جائے کہ ہم اس کی ممبر شپ کیلئے بوٹ چاٹتے رہیں۔2018 کے انتخابات کے بعد خیال تھا کہ اس دفعہ منصفانہ اور شفاف انتخابات ہوں گے ،ایک بار پھر ہماری خواہش اور آئین کی بالا دستی کو کچل دیا گیا ہے ،مجھے فکر ہے کہ ایک الیکشن کے بعد دوسرا بھی متنازع ہو تو پارلیمان کی اہمیت کیا ہوگی ،پارلیمنٹ کو ہم سپریم ادارہ کہتے ہیں ،اگر اسٹیبلشمنٹ ایک ایک حلقے سے مرضی کے نمائندے چنے گی تو وہ عوام کا نمائندہ نہیں ہوگا ،اگر عوام کے نمائندے نہیں ہوں گے تو پارلیمنٹ کی کیا اہمیت ہوگی،فضل الرحمن نے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے اس آئین پر دستخط کئے ،آئین کے تحفظ کو اپنی زمہ داری تصور کرتے ہیں لیکن آئین کی کوئی حیثیت نہیں ہے ،جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہا ہے دنیا کو کیا جواب دیں گے ،یہاں تو پارلیمنٹ کی بجائے ہمارے ملازمین کی اہمیت ہے،آئین کی کوئی حیثیت نہیں ،ہم دنیا کو کیا جواب دیں گے ،حاکمیت اللہ کی ہے یہاں تو پارلیمنٹ کی حاکمیت نہیں بلکہ ہمارے ملازمیں کی حاکمیت ہے ،پھر کس طرح اس نظام کے ساتھ چلیں گے ،ن لیگ اور پی پی ہمارے دوست ہیں۔

آئین کے چند ٹکڑوں کا نام ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں،اکثریت کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ قرآن کے فیصلوں کو بدل دے،یہاں ہمارے پارلیمنٹ کی حاکمیت نہیں ہمارے ملازمین کی حاکمیت ہے،ہم کس طرح اس نظام کے ساتھ چلیں گی ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کو دیکھتے ہیں کہ وہ بڑھ رہی ہے اور یہ لوگ کیا کھیل کھیل رہے ہیں ،دفاعی قوت پر تنقید نہین کرتا لیکن جب دفاعی قوت سیاسی قوت بن گئی ہے تو پھر سیاسی قوت پر تنقید ہوگی،انہوں نے کہا کہ ہمیں اب سوچنا تو چاہیے کہ پارلیمانی سیاست کریں یا نہ کریں ،جب سڑکوں پر آؤں گا تو مکمل طاقت کے ساتھ آؤں گا ،سڑکوں پر آنے کیلئے کسی کے تائید کی ضرورت نہیں ہے ،کرسی بانٹ حکومت کی کوئی افادیت نہیں ہے ،مسلم لیگ ن کی حکومت ہو یا پیپلز پارٹی کی ایک دوسرے کو بلیک میل کرتے رہیں گے ،کیا حکومت ایک دوسرے کی مطالبات پورے کرسکے گی یا نہیں ،بیس سال سے دہشت گردی بڑھ رہی ہے لیکن جنگ ختم نہیں ہورہی ،انہوں نے کہا کہ ہم جلسے میں جاتے تو کہتے ہیں کہ مت جاؤ تمھارے پیچھے خود کش ہیں ،لیکن مخالفین کے جلسوں کو سیکورٹی فراہم کی جاتی ،پارلیمنٹ کی ممبر شپ کے لئے بوٹ نہیں چاٹ سکتے ،ہم ملک کے لئے اچھا سوچ رہے تھے ،لیکن اس سوچ کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کیوں کی گئیں،مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ یہ ملک ہمارا ہے اس کو چلا نا اور حفاظت کرنا اور نظریاتی حوالے سے قرآن سونے کے ہم آہنگ بنانا ہماری ذمہ داری ہے،کس طرح قرآن کی تحریف کا راستہ اپنایا گیا ،جو قرآنی حوالے دئے گئے اس کی تفسیر وہ نہیں جو کی گئی،پارلیمنٹ ایک چھوٹی سی قانون سازی بھی نہیں کرسکتی،یہ ملک ہمارا ہے اس کو چلا نا اور حفاظت کرنا اور نظریاتی حوالے سے قرآن سونے کے ہم آہنگ بنانا ہماری ذمہ داری ہے،سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مندرجات جو پڑھیں ،کس طرح قرآن کی تحریف کا راستہ اپنایا گیا ،جو قرآنی حوالے دئے گئے اس کی تفسیر وہ نہیں جو کی گئی،وکلاء سے بات کی ان شاء اللہ نظرثانی کی اپیل دائر کریں گے اور جے یو آئی اس میں فریق ہوگی ،اگر عیسائی اپنے لوگوں کو تعلیم دے تو دیتا رہے،تحریف کرنے والا ہے کون وہ سوائے قادیانی کوئی اور نہیں۔