مارشل لا دور میں ججز آزاد نہیں تھے،عدالتی معاون خالد جاوید خان

ذوالفقار علی بھٹو کیس تاریخ کا وہ واحد فوجداری فیصلہ ہے جو 935 صفحات پر مشتمل ہے، چیف جسٹس ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا، سپریم کورٹ اس حد تک ضرور قرار دے سکتی ہے کہ بھٹو کیس غلط طریقے سے چلایا گیا، خالد جدون خان سپریم کورٹ کسی بھی عدالت کے فیصلے کا جائزہ لے سکتی ہے، ججز کی آزادی اور ان پر ریاستی دبا ہو تو اس بات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے، چیف جسٹس کے ریمارکس

پیر 26 فروری 2024 15:15

�سلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 فروری2024ء) چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس تاریخ کا وہ واحد فوجداری فیصلہ ہے جو 935 صفحات پر مشتمل ہے۔پیر کوچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کیس کی سماعت کی ۔ جسٹس طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ دیگر معاونین کے برعکس کچھ کہنا چاہتے ہیں تو بتا دیں۔عدالتی معاون سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ میں نے تحریری طور پر بھی معروضات پیش کی ہیں، سابق وزیرِ اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کیس کا ٹرائل شفاف انداز میں نہیں چلایا گیا، سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا، سپریم کورٹ اس حد تک ضرور قرار دے سکتی ہے کہ بھٹو کیس غلط طریقے سے چلایا گیا۔

(جاری ہے)

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس کے میرٹس پر نہیں جا سکتی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کا پابند ہے۔خالد جاوید خان نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے علاوہ دیگر معاملات پر عدالت رائے دینے کی پابند ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرے خیال میں عدالت بھٹو کیس میں صرف ٹرائل شفاف ہونے کی حد تک دیکھ سکتی ہے۔

خالد جاوید خان نے کہا کہ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہو گا پوری ریاستی مشینری آمر ضیا الحق کے کنٹرول میں تھی، لاہور ہائی کورٹ کے جج آفتاب احمد نے کہا تھا ذوالفقار بھٹو اچھے مسلمان نہیں، ہائی کورٹ جج کو کسی کے اچھے مسلمان ہونے پر بات کرنے کی کیا ضرورت تھی، اچھا مسلمان ناہونے کی بات بھی سپریم کورٹ کے نوٹس میں آئی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے جج کی آبزرویشن کی نفی نہیں کی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے جج کی بات کو غلط نہیں کہا۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کے جج نے ایسی بات کی تھی اگر عدالت غلطی کرے تو اسلام کیا کہتا ہی ہمیں سمت کو ٹھیک کرنا چاہیے۔خالد جاوید خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ موجود ہے جس میں ہائی کورٹ کے جج کی آبزرویشن کا ذکر ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس تاریخ کا وہ واحد فوجداری فیصلہ ہے جو 935 صفحات پر مشتمل ہے، کیا کبھی ایسا طویل فوجداری فیصلہ لکھا گیا ہے تو بتائیں۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ تفصیلی فیصلے سے لگتا ہے جن ججز نے فیصلہ دیا وہ خود بھی متفق نہیں تھے اس لیے اتنی تفصیل لکھی،جسٹس منصور نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ کیسے دیکھ سکتی ہی انصاف کے تقاضے پورینہیں کیے گئے تو کس طریقے سے سپریم کورٹ اب دوبارہ جائزہ لی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کسی بھی عدالت کے فیصلے کا جائزہ لے سکتی ہے، ججز کی آزادی اور ان پر ریاستی دبا ہو تو اس بات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

جسٹس منصور نے کہا کہ بھٹو کیس میں ٹرائل کی شفافیت دیکھی جاسکتی ہے مگر طریقہ کار کا بتایا جائے، ایک صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ فوجداری کیس کا ٹرائل کیسے دوبارہ کھولے۔عدالتی معاون خالد جاوید خان نے کہا کہ مارشل لا دور میں ججز آزاد نہیں تھے۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ مارشل لا میں آئین کو ختم کیا گیا تھا۔پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی نے کہا کہ جب جسٹس وحید الدین بیمار ہوئے تو یہ معاملہ عدالت میں رکھا گیا، اس وقت ایک ایڈہاک جج 9 ممبر بینچ میں شامل ہوئے، اس کیس میں قیصر خان ایڈہاک جج تھے۔

عدالتی معاون خالد جاوید خان نے کہا کہ عدلیہ آزاد ہوتی تو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی، بھٹو اپیل پر سپریم کورٹ میں جس عدالتی بینچ نے کیس سنا اس میں ایڈہاک ججز بھی تھے۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ بھٹو کیس 9 رکنی بینچ نے سنا بعد میں 7 رہ گئے تھے۔جسٹس منصور نے کہا کہ حال ہی میں انتخابات کیس 9 رکنی بینچ نے شروع کیا پھر 6 رہ گئے تھے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ نسیم حسن شاہ ایڈہاک جج کے طور پر کیس کیسے سن سکتے تھے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمیں سمت ٹھیک کرنی ہے وہ کیسے بہتر کر سکتے ہیں بھارت، برطانیہ اور دیگر مثالوں کو کیسے دیکھیں، قانون کا حوالہ تو ہو جس کے تناظر میں ہم اس کیس کو دیکھیں۔جسٹس منصور نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ ججوں پر پریشر تھا لیکن اس کیس کو کیسے سنا جاسکتا ہے، عدالتی ریکارڈ پر ایسا مواد دکھائیں جس سے ثابت ہو ججز پر دبا تھا یا تعصب پر فیصلہ کیا گیا، ایسے میں تو کہا جائے گا ہر کیس کھولا جائے۔

عدالتی معاون خالد جاوید خان نے کہا کہ ہم مختلف دور میں رہ رہے ہیں، اس وقت ہزاروں لوگ جیلوں میں ڈالے گئے، لوگوں کو پھانسیاں دی گئیں، اس وقت ملک میں بدترین مارشل لا تھا، اس وقت ملٹری کورٹس کے ذریعے لوگوں کو سزائیں دی جاتی رہیں، صحافیوں کو کوڑے مارے گئے، میرے والدین کو بھی فوجی عدالت سے سزائیں دی گئیں، اس وقت سازباز کر کے چیف جسٹس پاکستان بنے، جب بھٹو کو پھانسی دی گئی اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم مختلف اختیار سماعت کے تحت کیس سن رہے ہیں۔عدالتی معاون خالد جاوید خان نے کہا کہ ایگزیکٹو کا عدلیہ پر شدید دبا تھا۔ جسٹس سردار طارق نے کہا کہ کوئی عدالتی فیصلہ کالعدم قرار دیے بغیر کیسے تعصب کا جائزہ لے سکتے ہیں، کیا ہم ٹرائل کورٹ، سپریم کورٹ اور نظرثانی کے فیصلے کالعدم قرار دے دیں، ہم ان فیصلوں کو کالعدم قرار دیے بغیر کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں۔

عدالتی معاون نے کہا کہ ریفرنس میں یہ پوچھا گیا عدالتی فیصلہ درست تھا یا نہیں، ملزم کو نوٹس دیے بغیرہائیکورٹ کو بھٹو ریفرنس منتقل کردیا گیا، میں نے مختلف ممالک کی مثالیں پیش کی ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمارے ہاں ایسی مثال نہیں ہے، اگر پارلیمنٹ کوئی قانون بنانا چاہے تو بنا سکتی ہے، ہم پارلیمنٹ کو کوئی قانون بنانے کی ہدایت نہیں دے سکتے۔

عدالتی معاون نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ درست نہیں تھا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ تو پھر ڈکلیئریشن آگیا۔بعد ازاں عدالتی معاون خالد جاوید خان کے دلائل مکمل ہوئے۔عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صدر نے ریفرنس میں سوال پوچھا بھٹو کیس کا فیصلہ قانونی طور پر درست ہے یا نہیں، دوسرا یہ کہ بھٹو کو سزا کا فیصلہ کسی تعصب کی بنیاد پر دیا گیا عدالتی پہلے فیصلوں کو اکثر بدلتی رہتی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا عدالت آرٹیکل 186/3 کے دائرہ اختیار میں یہ کر سکتی ہی ۔