خیبر پختونخوا میں پولیو قطرے پلانے والے کارکنوں پر مسلسل حملے

DW ڈی ڈبلیو منگل 12 مارچ 2024 17:40

خیبر پختونخوا میں پولیو قطرے پلانے والے کارکنوں پر مسلسل حملے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مارچ 2024ء) پولیو کے قطرے پلانے کی پانچ روزہ مہم میں سرگرم کارکنوں کے تحفظ کے لیے پولیس کے 48 ہزار پولیس اہلکار خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود دوہزار بارہ سے اب تک محکمہ صحت اور پولیو کے 138 اہلکاروں کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا،جبکہ کسی کا قاتل بھی گرفتار نہ ہوسکا ۔

پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیر پختونخوا میں اب بھی ہزاروں بچوں کے والدین پولیو ویکسین کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس سے انکار کرتے ہیں خیبر پختونخوا میں پولیو مہم کی مخالفت ایک عرصے سے جاری رہی ہے۔

پہلے قبائلی اضلاع میں ڈرون حملوں پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے کالعدم تحریک طالبان نے اس مہم کو اسلام دشمن قرار دیتے ہوئے اسکی مخالفت کی اور علاقے کے عوام کو اس مہم سے دور رہنے کی ہدایات دیں۔

(جاری ہے)

یوں شمالی اور جنوبی وزیرستان سمیت ملحقہ بندوبستی علاقوں میں بھی مقامی دینی راہنماؤں کے زریعے عوام کو اس مہم سے دور رکھنے کی مہم چلائی گئی۔ بچوں کو پولیو جیسی بیماری سے بچانے کے لیے اس مہم کی دوسری بار مخالفت میں اس وقت تیزی آئی جب سال 2012 ء میں ایک پاکستانی ڈاکٹر نے مبینہ طور پر القائدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا پاکستان میں پتہ لگانے کے لیے گھر گھر جعلی پولیو مہم شروع کی ۔

پاکستان کے قبائلی اضلاع میں موجود کالعدم تحریک طالبان نےاس پر احتجاج کرتے ہوئے اپنے زیر اثر علاقوں میں پولیو مہم پر پابندی لگائی اور پولیو سے بچاؤ کے عملے کو سنگین نتائج کی دہمکیاں دیں جبکہ علاقے کے عوام کو بھی خبردار کیا کہ اس مہم سے دور رہنے کا کہا گیا ۔ اس دوران انسداد پولیو مہمات میں شریک مرد و خواتین اہلکاروں اور انکی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کے قبائلی اضلاع سمیت صوبہ بھرمیں قاتلانہ حملے شروع کئے گئے۔

اب تک 138 پولیو ورکرز اور انہیں سکیورٹی فراہم کرنے والے 138 افراد کو قتل کیا گیا ۔

افغان مہاجرین کے پولیو کیسز میں اضافہ

دینا بھر سے پولیو کا خاتمہ کیا گیا ہے لیکن پاکستان اورافغانستان دو ایسے ممالک ہیں جہان پولیو وائرس موجود ہے ۔ پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی اور پاکستان میں افغان باشندوں کے داخلے کے قوانین میں سختی لانے کے بعد پولیو کیسز میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

سال رواں کے دوران پاکستان میں پولیو کا نیا کیس سامنے نہیں آیا۔

خیبر پختونخوا میں پولیو مہم کوآرڈی نیٹر کی ڈی ڈبلیو سے بات چیت

پولیو کے کوآرڈینیٹر عبدالباسط سے جب رواں مہم کے حوالے سے ڈی ڈبلیو نے بات چیت کی تو انکا کہنا تھا،''پولیو سے بچاؤ کی سال رواں کے دوران یہ دوسری مہم ہے۔ اس دوران 73 لاکھ سے زیادہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا ٹارگٹ رکھا گیا تھا اس مہم کے لیے تربیت یافتہ پولیو ورکرز کی تقریباً 32 ہزار ٹیموں نے حصہ لیا اور ان ٹیموں کی موثر نگرانی کے لیے سات ہزار سے زیادہ علاقائی انچارج تعینات کیے گئے تھے۔

کوششیں کی جا رہی ہیں کہ کوئی بھی بچہ پولیو ویکسین کے بغیر نہ رہے۔

انکا کہنا تھا کہ بھر پور آگاہی مہم کے باوجود اس مہم کے دوران بھی 62 ہزار سے زیادہ والدین بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکاری ہیں ۔عبد الباسط کا کہنا تھا کہ گرچہ حالیہ مہم ننانوے اعشاریہ سے بھی زیادہ کامیاب رہی اس کے باوجود اعداد و شمار کے مطابق بعض وجوہات کی بنا پر ایک لاکھ 45 ہزار بچوں تک رسائی نہ ہوسکی ۔

صوبائی وزیر صحت قاسم علی شاہ

صوبائی وزیر صحت قاسم علی شاہ کا کہنا ہے کہ" پشاور کے مختلف علاقوں سے ماحولیاتی نمونے حاصل کیے گئے جس میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ۔ انکا کہنا تھا کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اس موذی مرض سے بچانے کے لیے پولیو کے قطرے پلائے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرنے والے والدین کے قومی شناختی کارڈ بلاک کیے جائیں گے۔

‘‘

پولیو مہم میں حصہ لینے والوں کی مشکلات

بچوں کو پولیو کے قطروں سے انکاری والدین کے بارے میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم کی ایک خاتون رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم جان کی بازی لگا کر گھر گھر جاکر لوگوں کی منتیں کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے قطرے پلائیں لیکن بعض ایسے لوگوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو کہتے ہیں کہ انکے انگوٹھے پر نشان لگوائیں لیکن قطرے نہ پلائیں ۔

یہاں پولیو قطروں کے بارے میں کئی طرح کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ پہلے انکاری والدین کہتے تھے کہ یہ لوگ ڈرون حملوں میں بے گناہ لوگوں کو مارتے ہیں لیکن بچوں کو بچانے کی فکر کرتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیو قطرے مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کے لیے جارہی ہے۔‘‘ انکا مزید کہنا تھا کہ اب تو سوشل میڈیا کے زریعے یہ کہا جارہا ہے کہ اسرائیلی حملوں کا سامنا کرنے والے بچوں کے ساتھ ہمدردی کے اظہار میں وہ ویکسینیشن کی مخالفت کرتے ہیں۔

‘‘

پولیو ورکرز اور سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے والے کون ہیں؟

سال رواں کے دوران پولیو مہم سے وابستہ 8 افراد قتل جبکہ 31 زخمی ہوئے ان میں سات پولیس اہلکار ہیں جو پولیو ٹیموں کو تحفظ فراہم کررہے تھے جبکہ پولیو کے ایک ورکر کو بھی قتل کیا گیا ۔ پولیو ورکرز اورانکی سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر سب سے زیادہ حملے دارالحکومت پشاور میں ہوئے جس میں اب تک 48 اہلکار قتل کیے گئے۔ دوسرے نمبر پر ڈیرہ اسماعیل خان ، جنوبی اضلاع ، ملاکنڈ ڈویژن اور دیگر شامل ہیں لیکن اب تک ٹارگٹ کلنگ میں ملوث افراد میں سے کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا جاسکا ہے۔