ایران میں بہائی فرقے کے لیے ’موت کے بعد بھی زمین تنگ‘

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 22 مارچ 2024 21:00

ایران میں بہائی فرقے کے لیے ’موت کے بعد بھی زمین تنگ‘

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 مارچ 2024ء) ایران میں اقلیتی بہائی فرقے کا کہنا ہےکہ ان کے ارکان کو موت کے بعد بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بہائیوں کی عالمی تنظیم بہائی انٹرنیشنل کمیونٹی (بی آئی سی) کے مطابق تہران کے جنوب مشرقی مضافات میں خاواران کے قبرستان میں حال میں مرنے والے کم از کم 30 اور ممکنہ طور پر 45 بہائیوں کی جسمانی باقیات دفن ہیں۔

لیکن ان کی یہ آخری آرام گاہیں اب کتبوں، تختیوں اور پھولوں سے محروم کر دی گئی ہیں۔ بی آئی سی کے مطابق رواں ماہ ایرانی حکام نے ان قبروں کے نشانات کو تباہ کرنے کے بعد اس جگہ کو بلڈوزر سے ہموار زمین بنا دیا۔

قبروں کی یہ بے حرمتی ایران کی اس سب سے بڑی غیر مسلم مذہبی اقلیت کے خلاف ان سختیوں کی نشاندہی کرتی ہے، جس کا سامنا بہائی نمائندوں کے مطابق انہیں 1979ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام کے بعد سے منظم ظلم و ستم اور امتیازی سلوک کی صورت میں کرنا پڑ رہا ہے۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کی طرح امریکہ نے بھی بہائیوں پر جاری اس ظلم و ستم پر تنقید کی ہے۔

بہائی عقیدہ غیر تسلیم شدہ

دیگر اقلیتوں کے برعکس بہائیوں کا عقیدہ ایران کے آئین میں تسلیم شدہ نہیں ہے اور اس کے نمائندوں کی ملکی پارلیمنٹ میں بھی کوئی مخصوص نشستیں نہیں ہیں۔ وہ ملک میں اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہیں اور انہیں ان کے کاروبار کے خلاف کریک ڈاؤن، اثاثوں کی ضبطی اورگرفتاریوں تک کے ساتھ ہراساں کیا جاتا ہے۔

بی آئی سی کے مطابق ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد حکام نے بہائی برادری کی ملکیتی مردوں کی تدفین کی دو جگہوں کو ضبط کر لیا اور اب ان کے مردے زبردستی خواران میں دفن کیے جاتے ہیں۔ یہ قبرستان ایک اجتماعی قبر کی جگہ ہے، جہاں 1988ء میں سزائے موت پانے والے سیاسی قیدیوں کو دفن کیا گیا تھا۔

اقوام متحدہ میں بی آئی سی کی نمائندہ سیمین فہندیج نے اے ایف پی کو بتایا، ''وہ (ایران) بہائی کمیونٹی پر ہر ممکن دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔

ان لوگوں نے ساری زندگی ظلم و ستم کا سامنا کیا، انہیں یونیورسٹی جانے کے حق سے محروم رکھا گیا، اور اب ان کی قبریں بھی مسمار کر دی گئی ہیں۔‘‘

بہائیوں کی قیادت جیل میں

امریکی محکمہ خارجہ کے دفتر برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے خواران قبرستان میں قبروں کے ''انہدام‘‘کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ''ایران میں بہائیوں کو جنازے اور تدفین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

‘‘ قبروں کو مسمار کرنے کا یہ عمل ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب ایران میں بہائی کمیونٹی پر جبر میں شدت آ چکی ہے اور جس کے نمائندوں کا خیال ہے کہ ایران میں ان کی تعداد اب بھی لاکھوں میں ہے۔

بہائی کمیونٹی کی ایران میں سینئر شخصیات میں سے ایک 71 سالہ شاعرہ مہوش سبط اور دوسری 61 سالہ فریبہ کمال آبادی کو جولائی 2022 ء میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ فی کس 10 سال قید کی سزا کاٹ رہی ہیں۔

دونوں کو اس سے قبل گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بھی حکام نے بارہا جیل بھیجا تھا۔

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا، ''ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ حکومت نے بہائیوں کی جائیدادوں پر قبضے میں ڈرامائی طور پر اضافہ کیا ہے اور بہائیوں کے لیے قید کی سزاؤں میں توسیع کے لیے جعلی مقدمات کا استعمال بھی کیا گیا۔‘‘

مذہبی عقیدے کے پیروکار یا اسرائیلی ایجنٹ؟

اقوام متحدہ کے مطابق ایران میں کم از کم 70 بہائی اس وقت یا تو حراست میں ہیں یا جیلوں میں باقاعدہ سزائیں کاٹ رہے ہیں، جب کہ مزید 1,200 کو عدالتی کارروائیوں کا سامنا ہے یا انہیں قید کی سزائین سنائی گئی ہے۔

بہائی عقیدہ نسبتاً ایک کم عمر توحیدی مذہب ہے، جس کی روحانی جڑیں 19ویں صدی کے اوائل سے ایران میں ہیں۔

اس فرتے کے اراکین کو بارہا ایران کے حریف ملک اسرائیل کے ایجنٹ ہونے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن سے متعلق انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔

فہندیج نے کہا کہ بہائیوں کا ایک روحانی مرکز اسرائیل کے بندرگاہی شہر حیفہ میں واقع ہے لیکن ان کے بقول اس کی تاریخ 1948ء میں اسرائیلی ریاست کے قیام سے پہلے کی ہے۔

مزید یہ کہ اس کا تعلق قومی سلامتی یا معاشرے کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے کسی پہلو سے نہیں۔ ایران میں اسلامی انقلا ب کے بعد سے 200 بہائیوں کو پھانسی کی سزائیں دی جا چکی ہیں۔

سختیاں وسیع کریک ڈاؤن کا حصہ

ایران میں انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے جاوید رحمان نے رواں ہفتے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کو بتایا تھا کہ وہ ''بہائی کمیونٹی کے افراد کو مسلسل ظلم و ستم، من مانی گرفتاریوں اور ہراساں کیے جانے پر انتہائی پریشان اور صدمے کا شکار ہیں۔

‘‘

فہندیج کے مطابق یہ واضح نہیں کہ بہائیوں کے خلاف ایران میں موجودہ کریک ڈاؤن کی وجہ کیا بنی۔ لیکن ان کے بقول یہ سب کچھ ایسے وقت پر ہوا جب ایرانی حکام ستمبر 2022 میں شروع ہونے والے حقوق نسواں کے حق میں ملک گیر مظاہروں کے تناظر میں ہر قسم کے اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش میں ہیں۔

ش ر⁄ م م (اے ایف پی)