بانی وکی لیکس جولین اسانج کی فتح،امریکا حوالگی کا معاملہ ٹل گیا

امریکا کو یقین دہانی کرانی ہوگی کہ اسانج کو سزائے موت نہیں دیگا،برطانوی عدالت

بدھ 27 مارچ 2024 13:34

بانی وکی لیکس جولین اسانج کی فتح،امریکا حوالگی کا معاملہ ٹل گیا
لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 مارچ2024ء) وکی لیکس کے بانی کی برطانیہ سے امریکا حوالگی روکتے ہوئے لندن ہائی کورٹ نے کہاہے کہ امریکا کو یقین دہانی کرانی ہوگی کہ جولین اسانج کو سزائے موت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی خبر کے مطابق امریکی استغاثہ 52 سالہ جولین اسانج پر 18 الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ سب الزامات جاسوسی ایکٹ کے تحت وکی لیکس میں خفیہ امریکی فوجی ریکارڈز اور سفارتی کیبلز جاری کرنے سے متعلق ہیں۔

جولین اسانج کے وکلا نے فروری میں برطانوی عدالتوں میں 13 سال سے زائد عرصے سے جاری قانونی جنگ کے دوران ان کو بے دخل کرنے کے لیے برطانیہ کی منظوری کو چیلنج کیا تھا۔اپنے فیصلے میں دو سینئر ججوں نے کہا کہ ان کے پاس اپنی حوالگی کے فیصلے پر اپیل کرنے کے لیے کئی بنیادیں موجود ہیں۔

(جاری ہے)

عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ جولین اسانج غیر امریکی شہری ہونے کے ناطے اظہار رائے کے حق سے متعلق پہلی ترمیم پر انحصار نہیں کرسکتا، اوراس وقت موجودہ الزامات میں سے کسی پر بھی سزائے موت نہیں دی جا سکتی، لیکن بعد میں ان پر سنگین جرم جیسا کہ غداری کیالزامات کے تحت فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے جس کا مطلب ہے کہ ان کی حوالگی غیر قانونی ہو گی۔

ججوں نے کہا کہ جولین اسانج نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کی طرف اشارہ کیا جس میں 2010 میں وکی لیکس پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے خیال میں سزائے موت یا کچھ اور ہونا چاہیے۔سرکردہ سیاست دانوں اور دیگر عوامی شخصیات کی طرف سے سزائے موت کے نفاذ کے مطالبات کا حوالہ دیتے ہوئے فیصلے میں کہا گیا کہ جولین اسانج کا مقدمہ کم از کم قابل بحث ضرور ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ اگر 16 اپریل تک امریکا کی جانب سے یقین دہانی نہیں کرائی جاتی تو جولین اسانج کو اپیل کرنے کی اجازت دی جائے گی۔کیس کی مزید سماعت 20 مئی تک ملتوی کردی گئی جس کا مطلب ہے کہ ان کی حوالگی کو جو ان کی قانونی ٹیم کے بقول فیصلے پر منحصر تھی، اسے روک دیا گیا ہے۔