پاکستان کی کرہ ارض کی پلاسٹک سے آلودگی کے خلاف اقدامات ، ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کو بہتر بنانے کے عزم کی تجدید

پاکستانی مندوب کا سرکلر اکانومی کو فروغ دینے کی اہمیت ،فضلے کے انتظام کے لیے سماجی رویوں، مالی وسائل اور ٹیکنالوجی کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زو

جمعرات 28 مارچ 2024 12:59

نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 مارچ2024ء) پاکستان نے کرہ ارض کو زندہ رہنے کے قابل بنائے رکھنے کی عالمی کوششوں کے سلسلے میں پلاسٹک سے آلودگی کے خلاف اقدامات اور ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کو بہتر بنانے کے عزم کی تجدید کی ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے نیویارک میں اقوام متحدہ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں زیرو ویسٹ کے عالمی دن(فضلے میں پلاسٹک کا خاتمہ)کی مناسبت سے ترکیہ کے مشن ، اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام(یو این ای پی)اور اقوام متحدہ کے ہیومن سیٹلمنٹس پروگرام یو این ہیبیٹیٹ کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے پاس پلاسٹک سے آلودگی پر قابو پانے اور ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کو بہتر بنانے کے منصوبے ہیں،یہ دن عالمی سطح پر فضلہ کے ٹھکانے لگانے کے انتظام کو تقویت دینے کی اہمیت اور استعمال اور پیداوار کے پائیدار نمونوں کو فروغ دینے کی کو اجاگر کرتا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستانی مندوب نے کہا کہ ہم پلاسٹک سے آلودگی کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے لیونگ انڈس انیشی ایٹو کے مجموعی فریم ورک کے تحت دریائے سندھ کے قریب واقع شہروں میں پیدا ہونے والے فضلے میں پلاسٹک کو ختم کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد کرنے کا اراداہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں جنرل اسمبلی کے صدر ڈینس فرانسس کے اقدامات اور ترکیہ کی خاتون اول ایمن اردوان کے پیغام اور قابل ستائش کوششوں کو سراہا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس اقدام کے ایک حصے کے طور پر ملک کے سندھ طاس کے شہرو ں میں فضلے سے پلاسٹک کا خاتمہ کیا جائیگا جس کا آغاز کراچی، لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، حیدرآباد، ملتان، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ سے ہوگا۔ پاکستانی مندوب نے فضلہ پیدا کرنے کے عالمی چیلنج پر روشنی ڈالتے ہوئے میونسپل، ٹھوس اور خطرناک فضلہ سمیت سالانہ پیدا ہونے والے فضلے کی نمایاں مقدار پر زور دیا۔

انہوں نے مندوبین کو بتایا کہ پاکستان 241 ملین افراد کی آبادی کے ساتھ ہر سال 30 ملین ٹن میونسپل ٹھوس فضلہ پیدا کرتا ہے جس میں سے 10 سے 14 فیصد کی خطرناک فضلہ کے طور پر درجہ بندی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان دنیا کے مختلف حصوں سے سالانہ اوسطا 80ہزار ٹن خطرناک فضلہ وصول کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے خطرناک فضلے کے انتظام کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے 2022 میں خطرناک ویسٹ مینجمنٹ کی قومی پالیسی بھی تشکیل دی ہے۔

پلاسٹک کے فضلے کے حوالے سے پاکستانی مندوب نے بتایا کہ پاکستان سالانہ 3.9 ملین ٹن پلاسٹک کا کچرا پیدا کرتا ہے جس میں سے صرف 25 سے 30 فیصد کومنیج کیا جاتا ہے۔ پلاسٹک کے فضلے کا ایک اہم حصہ، تقریبا 164,332 ٹن، دریائے سندھ کے نظام کے ذریعے ہر سال سمندر میں چلاجاتا ہے ۔منیر اکرم نے کہا کہ یہ اس تناظر میں ہے کہ پاکستان پلاسٹک کی آلودگی سے متعلق بین الحکومتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کا منتظر ہے ۔

پاکستانی مندوب نے سرکلر اکانومی کو فروغ دینے کی اہمیت ،فضلے کے انتظام کے لیے سماجی رویوں، مالی وسائل اور ٹیکنالوجی کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے فضلہ میں کمی، دوبارہ استعمال اور ری سائیکلنگ کے ہدف کے حصول کے لیے پالیسی مداخلتوں کے مرکزی جزو کے طور پر مشترکہ لیکن تفریق شدہ ذمہ داری کے اصول کے اطلاق پر بھی زور دیا۔