وفاقی حکومت کا ججز کے خط پر تحقیقات کیلئے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں انکوائری کمیشن قائم کرنے کا اعلان، معاملہ کل وفاقی کابینہ میں پیش کیا جائے گا، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کے ہمراہ پریس کانفرنس

جمعرات 28 مارچ 2024 21:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 28 مارچ2024ء) وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی طرف سے خط پر غیر جانبدار ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں انکوائری کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ وزیراعظم یہ معاملہ (کل) جمعہ کو وفاقی کابینہ میں پیش کریں گے، عدلیہ کی آزادی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور حکومت اپنے فرائض سے احسن طریقہ سے عہدہ برآ ہو گی۔

وزیراعظم محمد شہباز شریف کی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے ملاقات کے بعد وفاقی وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے جمعرات کو اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات کا پس منظر ججز کا ایک خط ہے جو سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی گردش کر رہا ہے جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز ججز نے سپریم کورٹ کے ججز اور چیف جسٹس کو اس چٹھی کے ذریعے اپنی شکایات ان تک پہنچائیں، خط میں بعض واقعات کا ذکر کیا جن میں سے زیادہ تر معاملات گزشتہ چیف جسٹس آف پاکستان کے دور سے متعلق ہیں۔

(جاری ہے)

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ خط کے تناظر میں گزشتہ روز چیف جسٹس نے ایک فل کورٹ اجلاس کیا اور ساتھی ججز کے ساتھ مشاورت کی۔ وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وزیراعظم اس معاملہ پر ان سے گفتگو و مشاورت کریں، صورتحال کی سنجیدگی کے پیش نظر وزیراعظم نے کہا کہ تمام مصروفیات کے باوجود اس کو اہمیت دینی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ میں خود جا کر چیف جسٹس سے ضروری مشاورت کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ جمعرات کو بعد دوپہر 2 بجے یہ ملاقات ہوئی ہے، چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ سے ملاقات ہوئی، وہ خود اور اٹارنی جنرل بھی ملاقات میں موجود تھے، ڈیڑھ گھنٹہ جاری ملاقات میں خط اور دیگر معاملات پر گفتگو کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ملاقات میں طے پایا کہ وزیراعظم وفاقی حکومت کی نمائندہ کابینہ کے سامنے کل یہ معاملہ رکھیں گے جو اس کا اختیار ہے تاکہ کابینہ کمیشن آف انکوائریز ایکٹ کے تحت کمیشن تشکیل دے سکے۔ وزیر قانون نے کہا کہ کوشش کی جائے گی کہ کسی نیک نام اور غیر جانبدار عدالتی شخصیت سے درخواست کی جائے کہ وہ کمیشن کی سربراہی کریں اور معاملات کی انکوائری کرکے قانون و ضابطہ کے مطابق رپورٹ مرتب کریں۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن کے حوالہ سے قواعد و ضوابط (ٹی او آرز) اٹارنی جنرل کی مشاورت سے مرتب کئے جائیں گے اور ان ٹی او آرز میں نہ صرف اس خط کے حوالہ سے بلکہ ماضی کے کچھ معاملات، جن کی قانون اگر اجازت دیتا ہو تو ان کا بھی جائزہ لیا جائے، ٹی او آرز کی منظوری کابینہ دے گی۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر قانون نے کہا کہ آج کی ملاقات میں کمیشن بنانے کا اصولی فیصلہ ہوا ہے، کل اس پر کابینہ میں بحث کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا وژن ہے کہ یہ کمیشن یک رکنی ہونا چاہئے تاکہ وہ ٹی او آرز کے تحت اپنی رپورٹ مرتب کر سکے۔ ایک اور سوال پر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کسی غیر جانبدار عدالتی شخصیت سے کمیشن کی سربراہی کی درخواست کی جائے گی۔ وزیر قانون نے کہا کہ آج کی ملاقات میں کی گئی گفتگو کا نچوڑ یہ ہے کہ ملک میں قانون اور ایک نظام موجود ہے، اس طرح کے معاملات کی چھان بین قانون کے تحت وفاقی حکومت کراتی ہے، انہوں نے خط کے معاملہ کو فل کورٹ میں رکھ کر اس پر مشاورت کرنے کے چیف جسٹس کے عمل کو بھی سراہا۔

انہوں نے کہا کہ کسی معاملہ کی انکوائری کا ایک طریقہ تو کمیشن کا قیام ہے اور دوسرا آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت جوڈیشل کارروائی کا ہے تاہم یہ حل زیادہ بہتر تھا اور اس کو قبول بھی کیا گیا کہ کمیشن بنا کر تحقیقات کی جائیں۔ وزیر قانون نے کہا کہ پارلیمان اور ہائی کورٹس میں فرق ہے اور ہر کسی کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ معاملہ عدلیہ پر چھوڑتے ہیں کہ وہ اس معاملہ کی انکوائری کرے تاکہ الزامات کی تحقیق کی جا سکے۔

وزیر قانون نے کہا کہ ٹی او آرز تفصیل سے مرتب کی جائیں گی تاکہ ایک سنجیدہ اور سنگین معاملہ کو سنجیدگی سے لیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سنجیدہ نوعیت کے معاملہ پر ہونے والی یہ ملاقات انتہائی خوشگوار رہی۔ وزیراعظم نے اہم قومی مسائل کی نشاندہی بھی کی جس میں ٹیکس کے کیسز التواء پر بات کی۔ وزیر قانون نے کہا کہ چیف جسٹس نے یہ کیسز مختلف بنچز میں فکس کئے ہوئے ہیں، وزیراعظم نے درخواست کی کہ باقی صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان سے بات کی جائے تاکہ ٹیکس معاملات کے زیر التواء کیسز کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے، اربوں کھربوں روپے مالیت کے ان کیسز کا فیصلہ ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط کے معاملہ کی سنجیدگی کے پیش نظر مختلف پہلوئوں پر غور کیا گیا۔ وزیر قانون نے کہا کہ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا بلکہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو قبل ازیں بھی اس طرح کی چیزیں منظرعام پر آتی رہی ہیں، جیسا کہ حالیہ ماضی میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا معاملہ ہے جس کا حال ہی میں سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا۔

وزیر قانون نے کہا کہ وزیراعظم نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو گا، وزیراعظم، ان کے خاندان اور جماعت نے خود تکلیفیں برداشت کی ہیں اور خود شکایت کنندہ رہے ہیں کہ عدلیہ خود مختار ہو تو معاملات کچھ اور ہوتے، وزیراعظم کو پاکستان کے عوام نے مینڈیٹ دیا ہے اور وہ اس سے سرخرو ہوں گے اور احسن طریقہ سے عہدہ برآ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ اس معاملہ کی چھان بین ہونی چاہئے، مستقبل میں بھی یقینی بنایا جائے کہ اس طرح کی نوبت نہ آئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اس کے ساتھ ساتھ اس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ مملکت پاکستان آئینی طریقہ کار کے تحت چل رہی ہے اور ادارے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں امور سرانجام دیتے ہیں، وزیراعظم نے چیف جسٹس اور ججز کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ادارہ جاتی مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اس امر کا بھی یقین دلایا کہ حکومت اپنے فرائض سے احسن انداز میں عہدہ برآ ہو گی اور اس توقع کا اظہار کیا کہ عدلیہ آزاد اور غیر جانبدار ہو گی اور ادارے بھی آئین میں دیئے گئے اختیارات سے تجاوز نہیں کریں گے۔ وزیر قانون نے کہا کہ اس پر سب کو عمل کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت، عدلیہ اور مقننہ کے اختیارات میں مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔ وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار کے حوالہ سے ماضی قریب میں سپریم کورٹ کے فیصلے خوش آئند ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں مستحکم جمہوری نظام کو بنیاد فراہم کرنے کیلئے یہ فیصلے ضروری تھے۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ان فیصلوں سے مستقبل میں اچھے ثمرات آئیں گے۔