انتخابات کے قریب آتے ہی بھارت کے مسیحی خوفزدہ

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 30 مارچ 2024 13:40

انتخابات کے قریب آتے ہی بھارت کے مسیحی خوفزدہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 مارچ 2024ء) دیپتی سن 2008 کے ان متاثرین میں شامل ہے، جب ایک ہندو پنڈت اور اس کے چار پیروکاروں کے قتل کے بعد مشرقی ریاست اوڈیشہ کے کچھ حصوں میں ہنگامہ آرائی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اس قتل کا الزام مقامی مسیحیوں پر عائد کیا گیا اور اس کے انتقام میں کم از کم 101 افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔

دیپتی کی عمر اس وقت 19 برس تھی اور اسے ہندو قوم پرستوں کے ایک ہجوم نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا کیوں کہ اس کے چچا نے کیتھولک مذہب ترک کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

دیپتی کا اصل نام ظاہر نہیں کیا جا رہا۔ گھروں میں کام کرنے والی اس 35 سالہ ملازمہ کا روتے ہوئے کہنا تھا، ''مجھے وہ ایک ایک لمحہ یاد ہے۔ میں نے اپنا سارا بچپن وہاں گزارا تھا، میں ان کو ان کی آواز سے پہچان سکتی ہوں۔

(جاری ہے)

‘‘

اس حملے کے بعد دیپتی کا خاندان ریاستی دارالحکومت بھونیشور منتقل ہو گیا۔ مقامی کمیونٹی لیڈروں کے مطابق دیپتی ان درجنوں خواتین میں سے ایک ہے، جنہیں پورے ضلع میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

ہجوم نے درجنوں گرجا گھروں، عبادت گاہوں اور مسیحیوں کے گھروں کو نذر آتش کر دیا تھا، جس سے دسیوں ہزار لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔

بھارت میں کئی مرحلوں پر مشتمل انتخابات کا آغاز 19 اپریل سے ہو رہا ہے لیکن چار جون کے نتائج کے بارے میں سبھی کا خیال ہے کہ برسراقتدار ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہی جیتے گی۔

ناقدین مودی کی جماعت بی جے پی پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ سرکاری طور پر سیکولر بھارت کو ایک ہندو ملک میں تبدیل کرنا چاہتی ہے، جس کی وہ تردید کرتی ہے۔

لیکن مسلمانوں کی طرح بہت سے مسیحی پریشان ہیں۔

انتہاپسند ہندو گروپ مسیحیوں پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ ہندوؤں کو زبردستی مسیحی بنا رہے ہیں۔ مسیحی کمیونٹی ایسے الزامات کی تردید کرتی ہے۔ لیکن ان الزامات کا نتیجہ یہ ہے کہ مقامی مسیحی کمیونٹی کو اکثر حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

گزشتہ مردم شماری کے مطابق بھارت کی آبادی 1.4 بلین نفوس پر مشتمل ہے اور ان میں سے دو فیصد سے زیادہ مسیحی ہیں۔

مقامی مسیحیوں کے مطابق ان کا مذہب تقریباً دو ہزار سال سے اس سرزمین پر موجود ہے۔

نئی دہلی میں قائم یونائیٹڈ کرسچن فورم (یو سی ایف) نے گزشتہ سال بھارت میں مسیحوں کے خلاف 731 حملے ریکارڈ کیے۔ سن 2008 کے حملوں میں بچ جانے والے اب بھی اس خوف کا شکار ہیں کہ انہیں دوبارہ نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

40 سالہ راحل ڈیگال کے پاس اپنے جلے ہوئے گھر کی تصاویر اب بھی موجود ہیں جبکہ ان کے گاؤں کا چرچ بھی اب کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔

وہ کہتے ہیں، ''جب ہم ان پرانے مناظر کو یاد کرتے ہیں اور خبریں دیکھتے ہیں (مسیحیوں کے خلاف جاری تشدد کے واقعات کے بارے میں) تو ہمیں خوف محسوس ہوتا ہے۔ وہ ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ مسیحیوں کو یہاں نہیں رہنے دیں گے۔‘‘

جب جنوری میں مودی نے ایودھیا کے شمالی شہر میں دیوتا رام کے لیے ایک عظیم الشان مندر کا افتتاح کیا، جس کی تقریبات ملک بھر میں منائی گئیں، تو اس وقت ڈیگال اور اس کے پڑوسی گھر ہی رہے۔

یہ مندر ایک صدیوں پرانی مسجد کی جگہ پر بنایا گیا تھا، جس کی 1992 میں ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے تباہی نے فرقہ وارانہ فسادات کو جنم دیا تھا۔ تب ملک بھر میں تقریباً دو ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں زیادہ تر تعداد مسلمانوں کی تھی۔

بی جے پی تسلیم کرتی ہے کہ اقلیتوں کی جانب سے اسے خطرہ سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے مطابق وہ اس سوچ کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

بی جے پی کے قومی ترجمان مونلومو کیکون کہتے ہیں، ''مودی مسیحی برادری اور ان کے رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں تاکہ انہیں یقین دلایا جا سکے کہ یہ ملک سب کے لیے ہے، یہ صرف اکثریتی برادری کے لیے نہیں ہے۔‘‘

تاہم جب بھی اقلیتوں کے خلاف تشدد کی خبریں سامنے آتی ہیں تو حکومت کے لیے ایسے دعوؤں پر یقین کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ا ا / ک م (اے ایف پی)